ColumnQadir Khan

ہردیپ سنگھ کا قتل سکھوں کی خود مختاری کو چیلنج

قادر خان یوسف زئی

سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ خالصتان تحریک سے وابستہ کینیڈین شہری جو سکھوں کے آزاد وطن کا بھرپور حامی تھا اور دیگر بھارتی سکھ علیحدگی پسند وں کے ساتھ بھارتی ریاست پنجاب سے الگ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے ، ان کے قتل کو بڑے پیمانے پر عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ویسے تو کئی مواقعوں پر بھارت کے ہندو توا کے جنون کے ہاتھوں مذہبی اکائیوں کو ظالمانہ رویئے کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے لیکن اس بار فائیو آئیز نے جس طرح مودی سرکار کو بے نقاب کرکے اس کے دوہرے معیار کو آشکار کیا ہے ، اس کے بعد سے بھارتی حکومت بوکھلا چکی ہے اورہردیپ کے قتل کے بعد، بھارت میں کینیڈین مخالف بیان بازی اور وزیر اعظم ٹروڈو پر ذاتی حملے زور پکڑ گئے ہیں۔ حال ہی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کینیڈا پر الزام لگایا کہ وہ ’’ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور منظم جرائم کی محفوظ پناہ گاہ‘‘ ہے۔ ان الزامات نے مغربی ممالک کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہوگا کہ جی 20میں بھارت نے دوہرے کردار و معیار کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔
سکھ رہنما کے قتل کا کینیڈا میں سکھ کمیونٹی پر بھی خاصا اثر پڑا۔ سکھ کینیڈا میں 1.3ملین بھارتی نژاد لوگوں میں سے تقریباً نصف ہیں۔ اب تو یہ امر کھل کر سامنے آچکا کہ کینیڈا میں بہت سے سکھوں نے محسوس کیا کہ بھارتی حکومت انہیں نشانہ بنا رہی ہے اور کینیڈین حکومت ان کی حفاظت کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی ، اس کی وجہ سے کینیڈین حکومت پر اعتماد ختم اور سکھ برادری میں بھارت مخالف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ واضح طور پر ہردیپ سنگھ کے قتل نے بھارت اور کینیڈا کے تعلقات پر دیرپا اثر ڈالا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات اب پہلے سے زیادہ کشیدہ ہیں۔ قتل کے سیاق و سباق، کینیڈا میں سکھ کمیونٹی اور ہردیپ سنگھ کے قتل کے زمینی حقائق و ادراک کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مودی سرکار کی ہندو توا کی ریاستی پالیسی کو سمجھا جائے۔
ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے کئی ممکنہ محرکات ہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ بھارتی حکومت اپنی پالیسیوں کے ایک ناقد کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ بلا شبہ مودی سرکار کا گجرات کے قصائی کے سفر سے تاحال تک ایک ہی منشور ہے کہ مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے لئے بھارت کی سرزمین سے اس قدر دبایا جائے کہ کوئی اختلاف کے لئے زبان بھی نہ کھول سکے۔ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ بھارتی حکومت کینیڈا سمیت مغربی ممالک میں مقیم سکھوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ خالصتان کی حمایت کو برداشت نہیں کرے گی، اس کا پس منظر بھی واضح ہے کہ بھارت سے علیحدگی کے لئے متعدد تحریکیں جدوجہد کر رہی ہیں ، مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں ، مودی کا یہ پیغام سب کے لئے یکساں ہے کہ وہ طاقت کے زور پر اپنے خلاف کسی بھی تحریک کو کچل دے گا اور اس کے لئے، اس نے جو کرنا اور جس طرح بھی کرنا ہے اس کی کوئی فکر نہیں ۔ آخر کار یہ بھی ثابت ہوتا جارہا ہے کہ یہ قتل بھارتی حکومت کی سرپرستی میں کیا گیا ۔
بھارت اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی کی جن بنیادی وجوہ پر توجہ دینا ضروری ہے، اس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ بھارت اپنے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان میں عسکری مداخلت کی حمایت کرتا ہے اور فنڈنگ کے علاوہ ماضی میں سقوط ڈھاکہ میں اپنے مجرمانہ کردار کا بھی کھلے عام اعتراف کر چکا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کے لئے کسی بھی اقدام ، یہاں تک کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں تامل نہیں برتا ۔ بھارت حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ یہ قتل انہوں نے کئے جو خالصتان تحریک کے مخالف تھے۔ مثال کے طور پر ہندو انتہا پسند گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی سکھوں کے خلاف تشدد کی ایک تاریخ ہے خیال یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ آر ایس ایس یا دیگر ہندو انتہا پسند گروپوں کی مدد سے سازش رچی ہو جس میں خالصتان تحریک کو کمزور کرنے کے لیے مغربی ممالک میں مقیم سرکردہ رہنمائوں کو قتل کیا جائے۔
امریکہ اور کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنمائوں کا قتل ایک سنگین تشویش ہے۔ ان ہلاکتوں کے پیچھے محرکات کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ان کو ہونے سے روکنے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ خالصتان تحریک کے رہنما کا قتل دنیا بھر میں سکھوں کو درپیش تشدد اور دھمکیوں کی صرف ایک مثال ہے۔ سکھوں کو اکثر ان کے مذہب اور ان کے سیاسی عقائد کی وجہ سے بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سکھوں کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔ بہت سے سکھوں کا بھی خیال ہے کہ سکھ رہنما کے موت کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے۔ وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نجر بھارتی حکومت کے سخت ناقد تھے اور انہیں ماضی میں بھارتی حکومتی عہدیداروں کی جانب سے دھمکیاں مل چکی تھیں۔ کینیڈین حکومت پر بھارت کے الزامات کے جاری سلسلے نے مودی سرکار کی انتخابی مہم کے لئے متشدد پالیسی کو بھی واضح کیا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے لئے مودی سرکار کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button