
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت آج ہوگی، فروری 2019 میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا تھا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیض آباددھرناکیس نظر ثانی درخواستوں پرسماعت آج ہوگی ، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ سماعت کرے گا ، جسٹس امین الدین خان اورجسٹس اطہرمن اللہ بنچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے21ستمبرکومقدمہ سماعت کیلئےمقررکرکےفریقین کونوٹس جاری کیاتھا ، جس کے بعد انٹیلی جنس بیورو اور پیمرا نے فیض آباددھرناکیس نظر ثانی درخواستیں واپس لینےکافیصلہ کیا ہے ، اس سلسلے میں آئی بی اور پیمرا نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی واپس لینےکیلئےمتفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔
انٹیلی جنس بیوروکے ڈپٹی ڈائریکٹر فاعد اسداللہ خان نے سپریم کورٹ میں متفرق دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ انٹیلیجنس بیورو فیصلہ کیخلاف نظر ثانی واپس لینا چاہتا ہے۔ آئی بی نے استدعا کی ہے کہ نظر ثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے، اسی معاملے میں ایک درخواست گزار شیخ رشید احمد ہیں، جن کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمہ ملتوی کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی بلوچستان کے نگران وزیر قانون بن چکے ہیں، شیخ رشید کے وکیل کی حیثیت سے پیش نہیں ہو سکتے۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ وکیل کا اپنے مؤکل شیخ رشید سے رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا، اس لیے استدعا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمہ کی 28 ستمبر کی سماعت ملتوی کردی جائے۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد میں ٹی ایل پی کے دھرنے پر از خود نوٹس لیا تھا اور سپریم کورٹ میں طویل عرصے بعد فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں سخت آبزرویشن دی تھیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2019 میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
جس کے بعد آئی ایس آئی، وزارت داخلہ سمیت متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ میں 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلہ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔
آئی ایس آئی نے سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کے 6 فروری کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نظر ثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ فیصلے کی وجہ سے آرمڈ فورسز کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے، آئی ایس آئی نے درخواست میں واضح کیا کہ پاک فوج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس ہے۔ اگر ایسا کوئی الزام ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ 6 فروری کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن سے ایسا لگتا ہے کہ آرمڈ فورسز نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے، جیو اور ڈان ٹی وی کی نشریات بند کرنے سے متعلق فیصلے میں آبزرویشن بھی بے بنیاد ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کیسے بتا سکتی تھی کہ تحریک لبیک پاکستان کا زریعہ آمدنی کیا ہے۔ یہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں تھا جو عدالت پوچھتی رہی۔ عدالت نے مختلف ممالک کے حساس اداروں کا فیصلے میں ذکر کیا ہے لیکن حالات کا تذکرہ نہیں کیا۔
درخواست میں آئی ایس آئی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ فورسز تنقید اور مخالف پروپیگنڈا پر دشمنوں کو جواب دے سکتی ہے لیکن جب عدالت کی جانب سے ایسی آبزرویشن آتی ہیں تو ملک کے دشمنوں کے خلاف آرمڈ فورسز اپنا دفاع نہیں کرسکتیں، فیصلے میں کہی گئی باتیں بے بنیاد اور آرمڈ فورسز کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، آرمی چیف کو ایکشن لینے کی ہدایات بھی واضح نہیں لہذا ان پر عمل کیسے ہو ، پاک فوج کے ترجمان کا بیان کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ آیندہ انتخابات صاف شفاف ہونگے کو حقائق سے ہٹ کر میڈیا پر پیش کیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ فیصلے میں رینجرز اہلکار کے دھرنا مظاہرین کو پیسے دینے کا ذکر ہے جس کے حالات کا جائزہ نہیں لیا گیاجبکہ یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تو مظاہرین نے کہا کہ گھر واپس جانے کے پیسے نہیں، حکومت اور مظاہرین کے معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے ان مظاہرین کو گھر واپس جانے کے پیسے دیے گئے، جن مظاہرین کے خلاف مقدمات درج نہ ہوئے اور وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ عدالت اس پہلو کا جائزہ نہیں لے سکی۔
آئی ایس آئی نے درخواست میں واضح کیا تھا کہ پاک فوج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس ہے، اگر ایسا کوئی الزام ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے، عدالت نے آئین کی شق 184/3 کا استعمال مناسب نہیں کیا اور استدعا کی گئی کہ فیصلے پر نظرثانی کرکے آئی ایس آئی اور آرمڈ فورسز کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کو کالعدم قرار دیا جائے۔