Editorial

لاکھوں غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی کا فیصلہ

دسمبر 1979میں سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا، اس ان چاہی جنگ سے خوف زدہ لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندوں نے پاکستان میں پناہ لی، ملک و قوم نے اُس وقت افغان باشندوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ اُن کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ افغانستان میں سوویت یونین کی مسلط کردہ جنگ 9سال تک جاری رہی اور سوویت یونین کے حصّے بخرے ہونے پر اس کا اختتام ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس لڑائی کے خاتمے کے ساتھ ہی افغان باشندے اپنے ملک کا رُخ کرتے اور باقی ماندہ زندگی وہیں گزارتے، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور یہ مہمان آج تک میزبان کے صبر کو آزماتے ہوئے ملک اور قوم پر بدترین بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اپنے وطن جانے کا نام ہی نہیں لیتے، اگر جاتے بھی ہیں تو کچھ مہینے وہاں چھٹی گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ سوویت افغانستان جنگ کے آغاز کو لگ بھگ 44برس بیت چکے ہیں۔ افغان باشندوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھ چکی ہے۔ اُنہوں نے یہیں تعلیم حاصل کی اور یہیں روزگار کماتے رہے، یہاں ان کے برسہا برس کے جمے جمائے کاروبار چل رہے ہیں۔ کئی افغان شہری اربوں روپے کی جائیدادوں کے مالک بن چکے ہیں۔ 44سال کسی بھی ملک کے باشندوں کی میزبانی کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ دُنیا کے کسی خطے میں ایسی مہمان نوازی کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ حالانکہ سوویت افغانستان جنگ اور اس کے بعد ملک عزیز میں ناصرف منشیات اور کلاشنکوف کلچر آیا بلکہ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور دیگر کئی خرابیوں میں بے پناہ شدّت آئی، جرائم تیزی سے پنپے، دہشت گردی کو بڑھاوا ملا، جس کا خمیازہ عرصہ دراز سے پاکستان اور اس کے عوام بھگت رہے ہیں۔ منشیات کا عفریت پچھلے 40سال سے زائد عرصے سے ملک میں بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں مچارہا ہے۔ کتنے ہی نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور کتنے ہی قابل ذہن اس لت میں مبتلا ہوکر دُنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی زیست کے دن پورے کررہے ہیں۔ لاکھوں افغان باشندے ملکی معیشت پر ہولناک بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ایسی معیشت جو پہلے ہی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ آج بھی لگ بھگ 37لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر وطن عزیز میں مقیم ہیں۔ ان کی پُرامن طور پر ان کے وطن واپسی کے مطالبات مختلف پلیٹ فارمز سے پوری شدومد کے ساتھ کیے بھی جاتے رہے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو بھی ازخود میزبان پر رحم کرتے ہوئے اپنے وطن کی راہ لینی اور وہیں زندگی گزارنی چاہیے، لیکن ایسی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی، اس لیے حکومت نے اس حوالے سے بڑا فیصلہ کرلیا ہے، جس پر فی الفور عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں دہشت گردی، جرائم، ڈالر، چینی اور کھاد کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے نگراں حکومت نے 11لاکھ غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی کابینہ نے غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے بے دخلی کے پلان کی منظوری دے دی، وفاقی کابینہ نے وزارت داخلہ کی سمری کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری دی، پہلے مرحلے میں غیر قانونی طور پر مقیم اور ویزوں کی تجدید نہ کرانے والوں کو نکالا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں افغان شہریت اور تیسرے مرحلے میں پروف آف ریذیڈنس کارڈ والوں کو نکالا جائے گا، وزارت داخلہ نے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول افغان حکومت کی مشاورت سے پلان تیار کیا، غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہری دہشت گردی، ڈالر، چینی اور کھاد اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہری دہشت گردوں کو فنڈنگ اور سہولت کاری میں بھی ملوث پائے گئے، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں سے پاکستانی کی سیکیورٹی کو سنگین خطرات لاحق ہیں،2021ء میں امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد 4لاکھ افغانی غیرقانونی طور پر پاکستان آئے تھے۔ نگراں حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی کا اہم فیصلہ کیا ہے، اس پر جلد از جلد عمل درآمد کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی تاخیر کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ناصرف دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ ڈالر، چینی اور کھاد کی اسمگلنگ پر بھی کنٹرول ہوسکے گا اور اس حوالے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار کرسکے گی۔ منشیات کی اسمگلنگ اور با آسانی دستیابی کے حوالے سے بھی صورت حال بہتر ہوسکے گی۔ ایسا فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے، نامعلوم کیوں سابق حکومتیں اس ضمن میں لیت و لعل سے کام لیتی رہیں اور ملک و قوم کی مشکلات میں اضافے کی وجہ بنیں۔ اب جب کہ یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اس پر عمل درآمد کر گزرا جائے، اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔
دہشتگردوں کیخلاف آپریشن، 4شرپسند جہنم واصل
امن و امان کی فضا مکدر کرنے کا سلسلہ پھر شروع ہوچکا، ملک عزیز میں پچھلے کچھ مہینوں کے دوران دہشت گردی کے عفریت نے پھر سے سر اُٹھایا ہے اور شرپسند عناصر تواتر کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنارہے ہیں۔ خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان صوبوں میں ان دہشت گرد کارروائیوں میں شدّت محسوس کی جارہی ہے۔ کئی سیکیورٹی اہلکار شہید کیے جاچکے ہیں۔ دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے پاک افواج مختلف آپریشنز کرنے میں مصروفِ عمل ہیں، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا پتا لگایا جارہا، علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جارہا ہے، بہت سے علاقے کلیئر کرائے جاچکے ہیں، شرپسندوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کے خاتمے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔ دہشت گردوں کو چُن چُن کر جہنم واصل کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز بھی چار دہشت گردوں کو اُن کے انجام تک پہنچادیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وادی تیراہ میں فورسز کے آپریشن کے دوران 3دہشت گرد مارے گئے، پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق خیبر کے علاقے تیراہ میں 25سے 26ستمبر کی درمیانی شب دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا، جس دوران سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، آئی ایس پی آر کے مطابق فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دہشت گرد کمانڈر کفایت عرف تور عدنان سمیت 3دہشت گرد مارے گئے، آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ہلاک دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں اور معصوم شہریوں کے قتل میں بھی ملوث تھے، آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں دیگر دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کلیئرنس جاری ہے، آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ادھر ڈی آئی خان کے کڑی ملنگ میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشترکہ آپریشن کے دوران دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں میں مطلوب کمانڈر سمیع اللہ مارا گیا، آپریشن کے دوران کمانڈر کرامت دیگر ساتھیوں سمیت فرار ہوگیا، ہلاک دہشت گرد حالیہ دنوں میں کانسٹیبل نذر کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث تھا۔ ان کارروائیوں میں مزید شدّت لانے کی ضرورت ہے، تاکہ جلد از جلد امن و امان کی فضا مکمل طور پر بحال ہوسکے۔ ان چار شرپسندوں کی ہلاکت بڑی کامیابی ہے۔ سیکیورٹی فورسز پہلے بھی دہشت گردوں کی کمر توڑ چکی، لاتعداد دہشت گردوں کو جہنم واصل اور گرفتار کرچکی ہیں۔ اس بار بھی دہشت گردی سے ملک کو پاک کرنے کا مشن چنداں مشکل نہ ہوگا اور یہ جلد کامیاب ہوں گی۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ اسے وافر تعداد میں ایسے بہادر سپوت میسر ہیں جو ملک کے ذرّے ذرّے کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے چنداں گریز نہیں کرتے۔ دہشت گردی کے مسئلے پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ قوم کو اپنے ان بہادر بیٹوں پر فخر ہے اور وہ پاک افواج کو قدر، عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button