اسمبلیوں کی نشستیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت مدت مکمل ہونے پر اقتدار سے علیحدہ ہوگئی اور حکومت اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے بعد مقرر کردہ نگراں سیٹ اپ کے حوالے کردی۔ نگراں حکومت کو ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے اور نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بارہا عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں۔ وہ انتخابی عمل کے شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہونے کی بھی نوید سناتے ہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور عوام کے مینڈیٹ سے منتخب لوگوں کے ہی اقتدار سپرد کیا جائے۔ گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری 2024کے اواخر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ اس فیصلے کی اکثر سیاسی جماعتوں نے ستائش کی تھی۔ بعض حلقوں نے اسے ہدفِ تنقید بھی بنایا تھا۔ بہرحال انتخابات سے متعلق اعلان ہوتے ہی عوام النّاس نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔ اس کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے انتخابی معرکہ سر کرنے کے لیے حکمت عملیاں طے کرنا شروع کردی ہیں۔ کوئی پنجاب میں میدان مارنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تو کوئی سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں انتخابات جیتنے کی جستجو میں ہے۔ سبھی جماعتیں انتخابی تیاریوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ عوام بے صبری سے عام انتخابات کا انتظار کررہے ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔ اسی حوالے سے اطلاع ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی موجودہ نشستوں کی تعداد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ابتدائی حلقہ بندیوں پر کام آخری مراحل میں داخل ہوگیا، الیکشن کمیشن آج ابتدائی حلقہ بندیوں کی منظوری دے گا، جس کی فہرست 27ستمبر کو جاری ہوگی۔ نئی حلقہ بندیوں میں بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی موجودہ نشستیں برقرار رکھی جارہی ہیں، الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی کمیٹیوں نے ابتدائی حلقہ بندیوں پر کام مکمل کرلیا ہے۔ اپنے جاری کردہ بیان میں الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں حلقہ بندیوں پر کام تیزی سے جاری ہے، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی منظوری کے بعد ابتدائی حلقوں کی فہرست جاری ہوگی جب کہ ان حلقہ بندیوں پر تجاویز اور اعتراضات 28ستمبر تا 27 اکتوبر دائر ہوسکیں گے، جنہیں کمیشن 26نومبر تک نمٹائے گا اور حتمی فہرست 30نومبر کو جاری کی جائے گی۔ خبر رساں ادارے آن لائن کے مطابق عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں، نتائج کی تیز ترین ترسیل کیلئے رزلٹ کمپلیشن سسٹم تیار کرلیا جب کہ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کیلئے سوچ بچار شروع کردی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ اسٹیشن کی فہرستیں بھی تیار کرلی گئی ہیں جب کہ انتخابی سامان کی خریداری سمیت بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے واٹر مارک کاغذ خریدا جاچکا ہے جو عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخاب میں بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ ذرائع کے مطابق انتخابات کیلئے ماسٹر ٹرینرز کی ٹریننگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے جبکہ پریذائیڈنگ افسروں کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کے بعد ٹریننگ دی جائے گی اور اس مقصد کیلئے ٹریننگ میٹریل کی چھپائی بھی کی جاچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کا عدلیہ سے آراوز کے لیے نئے چیف جسٹس سے دوبارہ رابطے کا امکان ہے اور عدلیہ کی جانب سے آر اوز نہ ملنے کے بعد پلان بی کے تحت بیورو کریسی سے آر اوز کی تعیناتی کی جائے گی اور اس سلسلے میں ابتدائی فہرست بھی تیار کرلی گئی ہے، جن کی تعیناتی نومبر میں ہونے کا امکان ہے اور نومبر کے آخر میں ان کو ٹریننگ دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق 25نومبر تک ووٹر لسٹوں کی حتمی فہرستیں تیار ہوجائیں گی جن پر اس وقت کام تیزی سے جاری ہے جس پر الیکشن کمیشن نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگلے عام انتخابات کے نتائج کی تیز ترین ترسیل کے لیے ایپ تیار کرلی گئی ہے جسے رزلٹ کمپلیشن سسٹم ( آر سی ایس) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سسٹم کے استعمال کیلئے ہر حلقے کے پریذائیڈنگ افسران کو ٹیبلٹ بھی فراہم کیے جائیں گے۔ کمیشن کے مطابق آر سی ایس کے ذریعے پریذائیڈنگ افسر نتائج ریٹرننگ افسر کو بھیجیں گے اور ای ایم ایس سسٹم انٹرنیٹ کے بغیر بھی کام کر سکے گا۔ ذرائع کے مطابق انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد سکیورٹی کیلئے سیکیورٹی اداروں کو خطوط لکھے جائیں گے اور پولنگ سٹیشنوں پر ڈیوٹی کیلئے سکیورٹی عملے کی خدمات حاصل کی جائے گی۔ عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بروقت اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی یا تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا، بلکہ پوری تندہی کے ساتھ بروقت عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے یہ ادارہ کوشاں ہے۔ عام انتخابات کے لیے اس ادارے نے لگ بھگ تمام تر تیاریاں مکمل کرلی ہیں، جن کی تعریف و توصیف نہ کرنا، ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ انتخابی شفافیت کے لیے الیکشن کمیشن کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ ان کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی تھی۔ عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے کہ انتخابی عمل ہر قسم کی دھاندلی، جانبداری، الیکشن چرانے اور دیگر الزامات سے مبرّا ہونا چاہیے۔ ماضی کے لگ بھگ تمام ہی انتخابات ان الزامات کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکے تھے اور ان کی شفافیت پر آج بھی سوالات اُٹھتے ہیں۔ اس لیے شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو راست اقدامات کرنے چاہئیں، دھاندلی، جانبداری، انتخابی بددیانتی کے تمام تر راستے مسدود کیے جائیں جب کہ نگراں حکومت کو بھی الیکشن کمیشن کی شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ہر طرح سے معاونت کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے کسی قسم کا دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہ رکھا جائے۔
لاہور میں پہلی پلاسٹک سڑک کا افتتاح
پچھلے مہینوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی میں پلاسٹک سے بنی سڑکوں کا افتتاح ہوا تھا۔ یہ سڑکیں کم خرچ بالا نشین کے مقولے پر پورا اُترتی ہیں۔ ان کی تعمیر میں خاصی کم لاگت آتی ہے اور یہ پائیداری میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ اس تناظر میں ملک بھر کے مختلف شہروں میں پلاسٹک کی سڑکوں کی تعمیر کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی، اس حوالے سے اطلاع لاہور سے آئی ہے، جہاں شہر کی پہلی پلاسٹک سے بنی سڑک کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے لاہور میں پہلی پلاسٹک سڑک کا افتتاح کر دیا اور سینٹر پوائنٹ تا والٹن روڈ سی بی ڈی پنجاب قائد ڈسٹرکٹ پراجیکٹ کا دورہ کیا۔ محسن نقوی نے پراجیکٹ پر کام کی رفتار کا جائزہ لیا اور والٹن ریلوے ٹریک پر اوور ہیڈ برج پراجیکٹ کے آغاز کا بھی معائنہ کیا۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نے سی بی ڈی پنجاب بلیوارڈ اور والٹن روڈ کو ملانے والی سڑک، مین بلیوارڈ گلبرگ، سی بی ڈی اور فیروزپور روڈ کو ملانے والی سڑک کا بھی معائنہ کیا اور ٹریفک کی بہترین مینجمنٹ کے لیے متعلقہ حکام کو ضروری ہدایات دیں، محسن نقوی نے والٹن اوور ہیڈ برج پراجیکٹ کو فاسٹ ٹریک پر 60روز، پنجاب قائد ڈسٹرکٹ منصوبے کو4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا، یہ منصوبہ لاہور کی ترقی کو نئی سمت دے گا۔ سینٹر پوائنٹ کو والٹن روڈ سے منسلک کرنے سے فاصلہ تین منٹ میں طے ہوگا۔ اس سڑک کی تعمیر سے گلبرگ کو براستہ سی بی ڈی والٹن سے ملایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا والٹن روڈ پر پانی جمع ہونے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اڈا نالہ پراجیکٹ شروع کیا۔ اس سے اس دیرینہ مسئلے کا حل ممکن ہوگا۔ سی بی ڈی کا پورا پراجیکٹ مکمل ہونے سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری آئے گی۔ سی بی ڈی منصوبے پر ہر بڑی کمپنی آرہی ہے، نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ پنجاب اور سندھ کی تقلید کرتے ہوئے دیگر صوبوں کے شہروں میں بھی پلاسٹک سے بنی سڑکوں کی تعمیرات کا آغاز کرنا چاہیے اور انہیں جلد پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہیے۔ اس کے علاوہ عوامی مفاد میں شروع کیے گئے منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں نگراں پنجاب حکومت احسن اقدام کر رہی ہے، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ تمام نگراں صوبائی حکومتوں کو پنجاب حکومت کی تقلید کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔