Editorial

شرح سود برقرار، گرانی میں کمی کی نوید

ملک و قوم پچھلے 5، 6برسوں سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ معیشت کی زبوں حالی کے نوحے ہر سُو بکھرے پڑے ہیں۔ پاکستانی روپیہ بے وقعتی کی اتھاہ گہرائیوں میں گِرا ہوا ہے اور ڈالر اس کے سینے پر مونگ دَل رہا ہے۔ ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی کہلانے والے روپے کی بے بسی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک و قوم پر قرضوں کا بوجھ پہلے ہی بے پناہ تھا، اب وہ ہولناک حد تک خاصا زیادہ ہوچکا ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہیں۔ مہنگائی کے نشتر قوم پر بُری طرح برستے چلے جارہے ہیں۔ ہر شے کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ آٹا، چینی ایسی بنیادی ضروریات غریبوں کی پہنچ سے دُور کردی گئی ہیں اور ان سمیت دیگر اشیاء کے مصنوعی بحران پیدا کرکے قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچا دی گئی ہیں۔ غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا پہلے بھی مشکل تھا اور پچھلے 5، 6برسوں میں یہ دُشوار گزار ترین مرحلہ بن کر رہ گیا ہے۔ آمدن سے زائد بجلی بل غریبوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ کوئی غریب اگر خدانخواستہ بیمار پڑ جائے تو اُس کے لیے علاج کرانے کے مقابلے میں مرجانا زیادہ آسان ہے، کیونکہ یہاں جان بچانے والی ادویہ مافیا نے نا صرف ناپید کر رکھی ہیں بلکہ ان کی قلت کے نام پر بلیک مارکیٹنگ کا مکروہ دھندا عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ ادویہ کے منہ مانگے دام وصول کیے جارہے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت روز بروز سنگین شکل اختیار کر رہا ہے۔ یہ احوال ہیں میرے ملک کے، جہاں غریبوں کے لیے سفرِ زیست جاری رکھنا، کسی کٹھن ترین آزمائش سے چنداں کم نہیں۔ ملکی معیشت کی صورت حال کی بہتری کے لیے بعض مشکل فیصلے کرنے پڑے ہیں، جس کے اثرات سے غریب خاصے متاثر ہیں، تاہم بہتری کے آثار ضرور دِکھائی دے رہے ہیں، قوموں کو اقوام عالم میں پھر سے اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے بعض اوقات کڑوی گولیاں نگلنا پڑتی ہیں، یہی صورت حال اس وقت ملک عزیز میں بھی ہے۔ ملکی تاریخ میں اس وقت شرح سود بلند ترین سطح 22 فیصد پر ہے اور اسے گزشتہ روز برقرار رکھا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی ( ایم پی سی) نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو تبدیل نہ کرنے اور 22فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جاری اعلامیے کے مطابق اس فیصلے میں مہنگائی کے تازہ ترین اعدادوشمار کو پیش نظر رکھا گیا ہے، جن سے مہنگائی کے گرتے ہوئے رجحان کی عکاسی ہوتی ہے، جو مئی 2023 میں 38فیصد کی بلند ترین سطح سے گر کر اگست 2023میں 27.4فیصد پر آگئی۔ اگرچہ تیل کی عالمی قیمتیں حال ہی میں بڑھی ہیں اور توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردوبدل کے ذریعے صارفین کو منتقل کی جارہی ہیں، تاہم تخمینے کے مطابق مہنگائی کمی کے راستے پر گامزن رہے گی۔ خصوصاً اس سال کی دوسری ششماہی سے۔ اس طرح آئندہ حقیقی شرح سود مثبت دائرے میں برقرار رہے گی۔ مزید برآں، بہتر زرعی پیداوار، زرمبادلہ اور اجناس کی منڈیوں میں سٹے بازی کی سرگرمیوں کے خلاف حالیہ انتظامی اقدامات کی وجہ سے رسد کی رکاوٹوں میں متوقع کمی سے بھی مہنگائی کے اس منظرنامے کو تقویت ملے گی۔
زری پالیسی کمیٹی نے جولائی میں منعقدہ اجلاس کے بعد سے پیش آنے والے چار کلیدی حالات کا تذکرہ کیا۔ اول، کپاس کی آمد کے تازہ ترین اعداد و شمار، خام مال کے بہتر حالات اور دیگر فصلوں کے حوالے سے بہتری کی نشاندہی کرنے والے سیٹلائٹ ڈیٹا کی بنیاد پر زراعت کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے۔ دوم، عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں اور اب 90ڈالر فی بیرل کی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ سوم، حسبِ توقع، جاری کھاتے کا خسارہ گزشتہ چار ماہ فاضل رہنے کے بعد جولائی میں خسارے سے دوچار ہوا، جو درآمدی پابندیوں میں حالیہ نرمی کے اثرات کی جزوی عکاسی کرتا ہے۔ آخر میں لازمی غذائی اجناس کی دستیابی بہتر بنانے اور زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی غرض سے حالیہ انتظامی اور ضوابطی اقدامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ایکسچینج ریٹ کے مابین فرق کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ وہ مہنگائی کے منظرنامے کو درپیش خطرات کی نگرانی کرتی رہے گی اور اگر ضرورت پڑی تو اپنے قیمتیں مستحکم رکھنے کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے موزوں اقدام کرے گی۔ ساتھ ہی ایم پی سی نے مجموعی طلب کو قابو میں رکھنے کے لیے دور اندیشی پر مبنی مالیاتی موقف برقرار رکھنے پر بھی زور دیا۔ مہنگائی پائیدار بنیاد پر نیچے لانے اور مالی سال 25کے آخر تک 5۔7فیصد مہنگائی کا وسط مدتی ہدف حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ بلند تعدد کے تازہ ترین دستیاب اظہاریے معاشی سرگرمی میں کچھ بہتری کے عکاس ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، کھاد اور سیمنٹ جیسے اہم خام مال کی فروخت میں معتدل اضافے کے ساتھ درآمدی حجم میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ خام مال کے حالات اور تازہ ترین اپڈیٹس میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ زرعی شعبے کے امکانات بہتر ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ فوری طور پر 8ارب ڈالر کی مالی ضرورت ہے، رواں مالی سال 24ارب 60کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے معاشی تجزیہ کاروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال 21ارب 20کروڑ ڈالر کا قرض ادا کرنا ہے، 3ارب 40کروڑ ڈالر قرض پر سود کی ادائیگی کرنی ہے، حکومت رواں مالی سال 2ارب 80کروڑ ڈالر کا قرض ادا کرچکی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید کہا 2ارب 20کروڑ ڈالر پرنسپل امائونٹ اور 60کروڑ ڈالر سود ادا کیا گیا، 8ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، 3ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہونے کے مرحلے میں ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے سخت اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ گو حالات مشکل ضرور ہیں، لیکن بہرحال کچھ مثبت اشاریے بھی ظاہر ہوئے ہیں، مہنگائی میں کمی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اللہ کرے غریبوں کو اس عذاب سے جلد از جلد چھٹکارا ملے۔ اسمگلرز اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کے مثبت اثرات ظاہر ہونے چاہئیں، اشیاء ضروریہ کے نرخ مناسب سطح پر آنے چاہئیں۔ ملک و قوم کے لیے جو بھی فیصلے موافق ہوں، وہ کیے جانے چاہئیں۔ خدا کرے کہ ملکی معیشت کی صورت حال بہتر ہو اور غریبوں کو خوش حالی نصیب ہو۔
مستونگ دھماکہ، حافظ حمداللہ سمیت 11افراد زخمی
2013 ء کے عام انتخابات سے قبل سیاسی رہنمائوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق تھے، اس حوالے سے صورت حال انتہائی خطرناک تھی۔ سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں تخریبی کارروائیاں کی جاتی تھیں، سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہمات صحیح طور پر چلانے کا موقع نہ مل سکا تھا، وہ جب بھی کوئی جلسہ یا میٹنگ کا انعقاد کرتے تو اُسے دہشت گرد اپنی مذموم کارروائی کا نشانہ بنا ڈالتے، ایسے واقعات میں کئی افراد زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ بشیر بلور ایسے سینئر سیاست دان بھی اسی دوران شہید ہوئے۔ ملک کے گوشے گوشے میں دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں کرتے تھے اور بعض سیاسی جماعتیں اُن کے خاص نشانے پر تھیں۔ وطن عزیز میں پھر سے سیاسی رہنمائوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز جے یو آئی (ف) کے اہم رہنما حافظ حمداللہ پر دہشت گرد حملہ ہوا، جس میں اُن سمیت 11افراد زخمی ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دھماکے کے نتیجے میں رہنما جے یو آئی حافظ حمداللہ سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ سے منگوچر جاتے مستونگ کے پاس سڑک کنارے گاڑی کے قریب دھماکا ہوا، جس سی جے یو آئی رہنما حافظ حمداللہ سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے۔ اطلاع ملتے ہی ریسکیو اور پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کیا اور جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرلیے گئے۔ زخمیوں میں حافظ حمداللہ کے ساتھی اور گن مین بھی شامل ہیں، جنہیں ابتدائی طور پر میر غوث بخش رئیسانی ہسپتال منتقل کیا گیا جب کہ حافظ حمداللہ کو طبی امداد کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ مستونگ کے اسسٹنٹ کمشنر عطاء اللہ میمن نے بتایا کہ واقعے میں 11 افراد زخمی ہوئے۔ ترجمان جے یو آئی (ف) اسلم غوری نے کہا کہ حافظ حمداللہ معمولی زخمی ہوئی، خطرے کی کوئی بات نہیں، تاہم ان کے گارڈ کی حالت تشویش ناک ہے۔ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی ہے۔ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ ملک و قوم ہرگز ایسے مذموم واقعات کی متحمل نہیں ہوسکتے۔ دہشت گردی کا راستہ روکنے کا بندوبست کیا جائے اور اس واقعے میں ملوث عناصر کو ناصرف بے نقاب کیا جائے بلکہ انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے۔ سیاسی رہنمائوں کی سیکیورٹی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ملک عزیز میں پچھلے کچھ مہینوں سے دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کئی سیکیورٹی اہلکار ان واقعات میں شہید ہوچکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان اور کے پی کے دہشت گردی کی نئی لہر سے زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ ملک سے پہلے بھی دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا۔ اب بھی پاک افواج اس مشن پر گامزن ہیں۔ دہشت گردوں کو چُن چُن کر مارا جارہا ہے۔ کئی علاقوں کو کلیئر کرایا جاچکا ہے۔ دہشت گردوں کے ناپاک وجود کے خاتمے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔

جواب دیں

Back to top button