ColumnImtiaz Aasi

غیر جانبدار نگران حکومت اور انتخابات

امتیاز عاصی
نگران حکومت واقعی غیر جانبدار ہے یا پھر کسی سیاسی جماعت کی حکومت کا تسلسل ہے بعض سیاسی حلقوں کے نزدیک نگران حکومت مسلم لیگ نون کی حکومت کا تسلسل ہے۔ فواد حسن فواد کی کابینہ میں شمولیت نے اس تاثر کو حقیقت میں بدل دیا ہے ۔فواد حسن فواد جنہیں شریف خاندان کا قرب حاصل ہے نیب ترامیم کے بعد مقدمات سے خلاصی ہونے کے بعدان کی کی کابینہ میں شمولیت پر الیکشن کمشن نے نگران وزیراعظم سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے مراسلے وزیراعظم سے سیاسی وابستگی رکھنے والوں کو کابینہ میں شامل کرنے سے اجتناب برتنے کو کہا ہے۔ تعجب ہے کے پی کے میں سیاسی وابستگیاں رکھنے والے وزراء کو الیکشن کمیشن نے ہٹوا دیا ہے لیکن وفاق میں سیاسی وابستگی رکھنے والوں کو وزیر مقرر کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ کیسا الیکشن کمیشن ہی جو نگران حکومت کے لئے ایڈوائزی بورڈ کا کام کر رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کا یقین تو اس وقت ہوتا چیف الیکشن کمشنر نگران وزیراعظم سے فواد حسن فواد کو کابینہ سے علیحدہ کرنے کا کہتے۔ ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں امریکہ اور دیگر ملکوں کو انتخابات بروقت کرانے کا کہنا پڑ رہا ہے ۔ انگریز کی غلامی سے ہمیں آزادی تو ملی گئی ذہنی طور پر ہم ابھی تک انہی کے غلام ہیں۔ چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال نے درست کہا ہے آئین میں الیکشن نوے روز کے اندر کرانے کا لکھا ہے تو اس پر تکرار کیسی؟ پی ڈی ایم کے اقتدار چھوڑنی کے فوری بعد قوم کو یہ بتانا ضروری تھا انتخابات کس وقت ہوں گے۔ عجیب تماشا ہے صرف ایک جماعت کو علم ہے انتخابات کب ہونے ہیں دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ سے لا علم ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لینا ہے انتخابات بارے ساری جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ نگران کابینہ میں مسلم لیگ نون کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والوں کو شامل کئے جانے سے نگران حکومت کی غیر جانبداری مشکوک ہو گئی ہے۔ نگران وفاقی وزیر منصوبہ بندی سمیع سعید نواز شریف دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں فرائض انجام دیتے رہے ہیں، پنجاب میں چیئرمین پی اینڈ ڈی رہ چکے ہیں، صوبائی دارالحکومت لاہور سے ان کا تعلق ہے۔ احد خان چیمہ کو شریف خاندان کا قر ب حاصل ہے۔ پنجاب میں تھے تو گریڈ انیس میں ہونے کے باوجود سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کے ساتھ ایک پراجیکٹ کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ نیب مقدمات میں مہینوں جیل میں رہے ۔ پی ڈی ایم دور کے وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر خاص تھے اور اب نگران وزیراعظم کے بھی مشیر ہیں۔ حیرت ہے کسی بیوروکریٹ کا تبادلہ ہو تو الیکشن کمیشن اس کی تقرری کینسل کر دیتا ہے کابینہ میں سیاسی وابستگی رکھنے والوں کی شمولیت پر صرف تشویش ظاہر کرتا ہے جو الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کا یہی عالم رہا تو آنے والے انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری پر حرف آسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے عوام کو ملکی تاریخ کی ہوشربا مہنگائی کا سامنا ہے انہیں انتخابات سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ غریب عوام کو ایسی جمہوریت سے کیا دل چسپی ہو سکتی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کو عوام کے مفادات کی بجائے مفاد کی پڑی ہو۔ انتخابات کے نتیجہ میں آزمائی ہوئی جماعتوں کو اقتدار میں آنا ہے تو ایسی جمہوریت سے عوام باز آئے ۔
کے پی کے اور گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے نتائج پی ڈی ایم کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ کل تک پیپلز پارٹی پی ڈی ایم حکومت کی اتحادی تھی آج پیپلز پارٹی تنہائی کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نگران حکومت کی جانبداری کا شکوہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لئے کہا تھا جب کہ مولانا کا موقف ہے وہ الیکشن چاہتے تھے حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے جے یو آئی کے امیر عمران حکومت کے آغاز سے ہی اس ختم کرنے کے درپے تھے ۔قوم جس اضطراب سے گزر رہی ہے اس کا ذمہ دروں کو ادراک ہونا چاہیے۔ عوام کے منتخب نمائندے حکمرانی کے حق دار ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے جمہوری ادوار میں عوام کو حکمرانوں کی لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں ملا۔ کسی حکومت کے خلاف عدم اعتماد جمہوریت کا حصہ ہے سوال ہے عدم اعتماد کے بعد غریب عوام کے لئے پی ڈی ایم نے کیا کیاہے؟ بس عوام کے ساتھ جھوٹے وعدوں اور ڈائیلاگ کے سوا دیا کیا ہے؟ نواز شریف وطن واپس آرہے ہیں ان کے واپس آنے سے کیا ہوگا۔ ان کے پاس کوئی آلہ دین کا چراغ ہے جو وہ تمام مسائل حل کر سکیں گے۔ ملکی مسائل کا حل ان کے پاس ہوتا وہ اپنے بھائی کو ضرور بتا دیتے۔ حقیقت یہ ہے قوم مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے عاجز آچکے ہیں۔ عمران خان کو مسیحا سمجھ کر عوام نے ووٹ دیئے وہ عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہے البتہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں قومی خزانہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا یا کسی غیر ملکی کمپنی سے کک بیکس وصول نہیں کئے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے موٹر وے بنانے والے کورین جاتے جاتے جنرل مشرف کو مبینہ کیک بیکس وصول کرنے والوں کی کارستانیوں سے مطلع کر گئے۔ کورین حکومت نے کک بیکس دینے والی کمپنی کے بندوں کو جیلوں میں ڈالا، ہم انہیں چوتھی بار وزیراعظم بنانے کے لئے بے تاب ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا اس امر کا ادراک ہو چکا ہے اسے سنگل آئوٹ کیا جا رہا ہے۔ سندھ میں جے یو آئی کے رہنمائوں کی ایم کیو ایم اور دیگر علاقائی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو سندھ کی حکمرانی سے آوٹ کی جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ بہرکیف آنے والے عام انتخابات جب بھی ہوئے پیپلز پارٹی کو سندھ کی حکمرانی سے محروم کئے جانے کا قومی امکان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button