جی 20کانفرنس اعلامیہ اور پاک ، بھارت موازنہ

روشن لعل
بھارت کے دارالحکومت دہلی میں 9اور 10ستمبر 2023ء کو دنیا کے ایک انتہائی اہم فورم G۔20کی سربراہی کانفرنس ہوئی۔ اس طرح کی کسی بھی کانفرنس سے وابستہ سب سے اہم بات اس کا اعلامیہ ہوتی ہے ۔ اس طرح کی کانفرنسوں کے حوالے سے بحث بھی ان کے اعلامیوں پر ہی ہونی چاہیے مگر دہلی میں منعقدہ G۔20کانفرنس کے بعد پاکستان میں جو مباحث شروع ہوئے ان میں اس کے اعلامیے پر بات کرنے کی بجائے زیادہ تر لوگوں نے یا تو بھارت کی معاشی ترقی کا پاکستان کی معاشی تنزلی کے ساتھ موازنہ کیا یا پھر یہ کہا کہ انڈیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، فرانس ، جرمنی ، اٹلی اور یورپی یونین نے سمندر، زیر سمندر اور زمین پر بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان جو اکنامک کاریڈور بنانے پر اتفاق رائے کیا ہے اس سے چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور سی پیک کی پاکستان کے لیے افادیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
جہاں تک پاکستان اور بھارت کی معیشتوں کے موازنے کی بات ہے تو اس کام کو جس حد تک بھی غیر موزوں سمجھا جائے کم ہے ۔ پاکستان اور بھارت کی معاشی حیثیتوں میں جتنا فرق رونما ہو چکا ہے اس کی موجودگی میں دونوں ملکوں کا موازنہ ایسے ہی جیسے صوبہ سندھ کی سب سے اونچی چوٹی گورکھ ہل کا موازنہ کے ٹو پہاڑ کی بلندیوں سے شروع کر دیا جائے۔ گو کہ بھارت ، تقسیم ہند کے وقت بھی پاکستان سے بڑی معیشت تھامگر دونوں ملکوں کی معاشی حالت میں اتنا زیادہ فرق نہیں تھا جتنا اب آچکا ہے ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہماری معیشت اگر زیادہ تر تنزلی کی طرف مائل رہی تو بھارت کا معاشی گراف، نشیب و فراز کے باوجود مسلسل ترقی کی طرف گامزن نظر آیا۔ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کا بھارت میں منعقدہ G۔20کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اگر ان کے دور حکومت میں شروع کی گئیں 2017ء کی پالیسیوں کو جاری رہنے دیا جاتا تو نہ صرف پاکستان G۔20کا رکن ہوتا بلکہ اس فورم کی کانفرنس بھی پاکستان میں منعقد ہوتی ۔ واضح رہے کہ میاں نوازشریف اگست 2017ء تک ملک کے وزیر اعظم رہے اور ان کی نااہلی کے بعد بھی مزید ایک برس تک پاکستان میں شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت قائم رہی۔ سال 2018ء میں اگر پاکستان معاشی طور پر دنیا میں 38ویں نمبر پر تھا تو بھارت کا نمبر 7واں تھا ۔ اب سال 2023ء میں بھارت اگر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے تو تنزلی کی طرف مائل پاکستان کی معیشت 46ویں نمبر پر آچکی ہے۔ جب 76برس قبل ایک ساتھ آزاد ہونے والے پاکستان اور بھارت کی معاشی حالت میں اتنا زیادہ فرق آچکا ہو تو پھر کسی کو بھی ان کا موازنہ کرنے یا بلاوجہ بڑھکیں مارنے کی زحمت نہیں کرنی چاہیے۔ ہاں ان باتوں پر غور و فکر ضرور ہونا چاہیے کہ کس قسم کی پالیسیوں پر تسلسل سے عمل کر کے ہماری معیشت تنزلی اور بھارت کی ترقی کی طرف گامزن ہوئی۔
جہاں تک بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مجوزہ اکنامک کاریڈور کے مقابلے میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور سی پیک کی افادیت کا سوال ہے تو اس معاملے میں صرف یہ کہنا ہی کافی ہے کہ بھارت کا مجوزہ اکنامک کاریڈور ابھی تک صرف ایک خواب ہے جس کے حقیقت بننے یا پھر خواب ہی رہنے کے یکساں امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا مگر سی پیک خواب نہیں ایک حقیقت کی شکل میں اپنا وجود رکھتا ہے ۔ ہاں یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہماری لولی لنگڑی معیشت اس حقیقت سے کتنا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں G۔20کے حوالے سے دیگر موضوعات پر تو بہت باتیں کی گئیں مگر بہت کم لوگوں نے اس فورم کے جاری کردہ اعلامیے کو موضوع بحث بنایا۔ دہلی میں منعقدہ G۔ 20کانفرنس کے دوران جو اعلامیہ جاری ہوا اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے: تمام ملکوں کو کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری یا سیاسی آزادی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے دھمکی یا طاقت کے استعمال سے گریز رہنا چاہیے۔ دہشت گردی عالمی امن اور سلامتی کے لیے سنگین ترین سمجھے جانے والے خطرات میں سے ایک ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کا محرک چاہے جو بھی ہو اور یہ کارروائیاں جب بھی جہاں بھی اور جس کسی نے بھی کی ہوں، انہیں بلاجواز مجرمانہ عمل کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاسکتا۔ معاشی اور مالیاتی استحکام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے عالمی سطح پر مساوی ترقی کو فروغ دینے کے لیے پسماندہ ملکوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مضبوط اور پائیدار ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان اہداف کے حصول کے لیے پیش رفت کو تیز کرنا ہوگا جس سے کثیر الجہتی اور سبز ترقی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تحریک پیدا ہو۔G۔20کے رکن ممالک ترجیحی بنیادوں پر زراعت، خوراک اور کھاد کے شعبوں میں غیر محدود، کھلی اور منصفانہ تجارت کو فروغ دینے کے حامی ہیں لہذا ضروری ہے کہ پرعزم ہو کر برآمدات پر پابندیاں عائد کرنے سے گریز کیا جائے۔ G۔20ممالک عالمی صحت کے ڈھانچے کو مضبوط تر بنانے کے لیے پرعزم اور متفق ہیں لہذا ان ممالک کو کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں کے ساتھ مل کر صحت کے نظام کو موثر اور کارگر بنانا چاہیے اور اس مقصد کے تحت ماحول کے تحفظ کے لیے آب و ہوا میں کاربن کی مقدار میں کمی جیسے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ صحت کے نظام میں بہتری لائی جا سکی۔ G۔20ممالک کے اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ترقی پذیر ممالک کی ترجیحات اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی استعداد کی تعمیر اور انہیں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے مالیاتی وسائل کو ماحول کو بہتر بنانے کے مقاصد کے تحت تصرف میں لانا چاہیے۔
G۔20کانفرنس کے اعلامیے میں روس ، یوکرین جنگ پر تحریر کیے گئے پیراگراف کا لب لباب یہ ہے کہ ہم عالمی معیشت پر جنگ کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھتے ہوئے متحد ہوکر ان تمام ضروری اور تعمیری اقدامات کا خیرمقدم کریں گے جن کے ذریعے یوکرین میں جامع، منصفانہ اور پائیدار امن کا قیام ممکن ہو سکے۔ جن بھارتی انشاپردازوں نے مودی حکومت کے ایما پر روس یوکرین جنگ سے متعلق مذکورہ پیراگراف تحریر کیا ، انہوں نے اپنی طرف سے تو بہت بڑا تیر مارا مگر یورپ کے میڈیا ، دانشوروں اور سول سوسائٹی نے ان کی اس کاریگری کو سخت ناپسند کیا ہے۔ جن لوگوں نے اس تحریر کو ناپسند کیا ، ان کی خواہش تھی کہ یوکرین کے ساتھ جنگ شروع کرنے پر روس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے تھی۔ نریندر مودی کی حکومت اگر یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے تعاون سے اکنامک کاریڈور جیسے منصوبے شروع کرنا چاہتی ہے تو اس کا ارادہ روس کو ناراض کرنے کا بھی نہیں ہے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مودی حکومت کی سب کو خوش رکھنے کی پالیسی کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔