شکور کسی کو یاد نہیں

تجمل حسین ہاشمی
بطور ڈاکٹر میری سروس کا وہ دن بہت قیمتی تھا جب شکور میرے پاس لایا گیا۔ جوانی تھی اور پیسہ بھی کمانا چاہتا تھا، اچھا خاصا سمارٹ تھا، میں نے بڑی تیزی سے بڑے آپریشن کئے تھے اور سب آپریشن کامیاب رہے۔ میری انگلیوں میں ایک لگن آباد تھی۔ انگلیوں میں gravityتھی۔ کٹے ہوئے جسم کو ٹانکا لگاتا، وہ زخمی کی زندگی میں خوشی لے آتا، میں جلدی جلدی زیادہ کرنے کا خواہش مند تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ یوں تو میں نے بڑے بڑے آپریشن کئے ہیں لیکن شکور کا آپریشن بہت مشکل تھا۔ جس نے زیادہ وقت اور میری زیادہ سوچ لی تھی، میں اس وقت سٹپٹا گیا تھا۔ بڑی کوشش اور تحمل کے ساتھ آپریشن کیا۔ اس واقعہ کے بعد میں آپ کو معلوم پڑے گا کہ پاکستان کے قیام کے ابتدائی سالوں میں معاشی ترقی سے دنیا کیوں حیرت زدہ تھی۔ اس کے پیچھے کتنی قربانیاں تھیں، ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں اپنے ہسپتال میں تھا کہ دو، چار لوگوں ایک بندے کو چار پائی پر لے کر آئے۔ اس بندے کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں۔ کسی تیز دھار الے سے کاٹی گئی تھیں۔ وہ بندہ جس کا نام شکور تھا۔ ساتھیوں نے اس کی رانوں کو رسیوں سے بندھا ہوا تھا تاکہ جریان خون نہ ہو۔ میں حیران تھا کہ میں اس کی کیسے مدد کروں۔ اسی دوران دو آدمی شکور کی دونوں ٹانگیں، جو کٹ چکی تھیں، ڈھونڈ کر لے آئے۔ ٹانگیں کسی بڑے تیز دھار آلے سے کاٹی گئی تھیں۔ ساتھیوں کا کہنا تھا کہ شکور بہت محنتی ورکر تھا۔ کافی ذہین اور قابل تھا۔ کام کے دوران مشین کے پاس گیا اور اس کی لپٹ میں آگیا ۔ لپیٹ میں آتے ہی اس کی دونوں ٹانگیں جسم سے جدا ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ دن ایک امتحان تھا۔ میں نے اور میرے ساتھی ڈاکٹروں اور میرے اسسٹنٹ نے بڑی محنت کی۔ 18گھنٹے آپریشن کرتے رہے اور اللّہ کے فضل سے دونوں ٹانگیں جوڑنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایک خوف اور خطرہ تھا۔ Nerveسسٹم کا ٹانگوں کے ساتھ رابطہ بحال ہونا، شریانوں کا اپنی جگہ جوڑنا اور جسم کا مکمل کام کرنا، بہت بڑا امتحان تھا، ہم اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں تھے۔ لیکن اتنا بڑا آپریشن پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ آپریشن تو بہت کئے تھے لیکن دنوں ٹانگوں کو جوڑنا مشکل عمل تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہم آپریشن سے فارغ ہونے کے بعد آپس میں باتیں کر رہے تھے اور ہمارے ساتھ ان کے ساتھی مزدور بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ٹانگیں کٹنے کے بعد شکور تھوڑا ہوش میں تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ مشین بند نہ کرنا کیونکہ اگر یہ مشین ایک دفعہ بند ہو گئی تو اس کے چلانے میں 10لاکھ کا خرچہ اٹھتا ہے۔ اس مشین کو بند مت کرنا، میں نہیں چاہتا کہ میرے ملک کو یا میرے اس کارخانے کو کوئی نقصان پہنچے۔ اس کے بعد شکور نیم بے ہوشی میں چلا گیا۔ ایسے ہزاروں وفادار لوگ اس دھرتی پر اپنا سب کچھ قربان کر گئے۔ لیکن آج ان کو کوئی یاد نہیں کرتا، کسی کو علم بھی نہیں ہو گا کہ کوئی شکور تھا جو وطن کی مٹی کے ساتھ اتنا مخلص تھا۔ یقینا آپ جاننا چاہتے ہوں گے کہ اس کارخانے کا نام کیا تھا، جہاں شکور کے ساتھ حادثہ پیش آیا اور یہ ڈاکٹر کون تھا، جو قابل اور وفادار تھا، جناب یہ کارخانہ آج اس سٹیج پر ہے جہاں اس کے پرزے تک چوری ہو چکے ہیں۔ ایف آئی آرز درج ہیں لیکن احتساب ممکن نہیں رہا۔ حکومت نے ہاتھ کھڑے کئے ہوئے ہیں، کئی دفعہ فنڈ جاری ہوئے لیکن سب کرپشن کی نظر ہو گئے ۔ حکومت اس کو پرائیویٹز کرنا چاہتی ہے، اس کارخانے کا نام سٹیل ملز ہے اور شکور بھی اسی سٹیل ملز کا ملازم تھا۔ ڈاکٹر کراچی کا مشہور نام ڈاکٹر شاہ تھا ۔ جس کو پاکستان کا ہر بندہ جانتا ہے، اللّہ پاک نے اس کی انگلیوں میں شفا اور ذہانت بھی کمال دے رکھی تھی۔ آج شکور کی سٹیل ملز بند ہو چکی ہے۔ بے بسی کی تصویر ہے۔ سٹیل ملز کو اس مقام تک لے جانے والے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا۔ ہزاروں سرکاری منصوبے سیاست کی نظر ہو چکے ہیں۔ سٹیل ملز میں ایسی لوٹ مار جہاں بجلی کی تاروں تک کو فروخت کر دیا گیا ہے ۔ احتسابی ادارے ناکام ہو چکے ہیں ، شکور کی ٹانگوں نے کام کرنا شروع کر دیا تھا لیکن آج وہ کارخانہ فروخت ہونے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ خریدار اور خراب کندہ لائن میں کھڑے ہیں ، قیام پاکستان کے لیے لاکھوں افراد قربان ہوئے، پھر لاکھوں لوگوں نے بغیر معاوضے کے دن رات ملک کی سلامتی اور معاشی حالت کو مثالی بنایا، دوسرے ملکوں کو قرضہ دینے کا سفر شروع ہوا، پھر سیاست، مفاہمت آئی۔ 1990ء کے بعد مقروض کی لسٹ میں پہلے کھڑے ملے۔ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں، بہت آسان ہے۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کا طرز حکمرانی نہیں، بدلہ، طاقت کے حصول کی یہ جنگ پہلے ایوانوں میں تھی، اب گلی محلوں اور خاندانوں میں لڑی جا رہی ہے، اس لڑائی کو ختم کرنا آسان نہیں ہو گا، اس کے لیے ایک ایسے فیصلے کی ضرورت ہے جس کے لیے ملک کے فیصلہ ساز کبھی تیار نہیں ہوں گے، کیوں کہ پھر طاقتور کا فیصلہ نہیں ہو گا بلکہ جس نظریے پر پاکستان بنا اسی پر فیصلے ہوں گے، کسی گورے اور کالے پر تفریق نہیں ہو گی، کوئی سرکاری پروٹوکول نہیں ہو گا، تمام لوٹ مار کی سکیمیں بند ہو جائیں گی، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں معاشرتی تقسیم کی شرح انتہائی کم ہے اور صدارتی نظام پر کھڑے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ میں نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو دو نقطوں پر راضی کیا تھا۔ کیوں کہ خان صدارتی نظام اور اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کے حق میں آوازیں اور اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی آوازیں کیوں اٹھتی ہیں، اس کا جواب کسی گلی کے کونے پر کھڑے شخص یا پھر پھیری والے سے پوچھ لیں، جو اس کشمکش میں نفسیاتی بن چکا ہے، جہاں سیاسی لیڈر ایشیا ٹائیگر، روٹی کپڑا اور مکان اور مدینے کی ریاست کے نام پر ووٹ لے کر خود ارب پتی اور غربت، مہنگائی کا طوفان غریب کی دہلیز پر ہے۔ شکور کے حوالے سے واقعہ اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سے اقتباس ہے ۔