Editorial

6دہشت گرد جہنم واصل: امن و امان کی صورتحال دوبارہ بحال ہوگی

ملک عزیز عرصہ دراز تک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ 2001ء سے 2015ء تک یہاں بدترین دہشت گردی کا دور تھا۔ ملک کے گوشے گوشے میں شرپسندی کی مذموم کارروائیاں تواتر سے ہوتی تھیں اور درجنوں معصوم لوگوں کی زندگیوں کے خاتمے کی وجہ بنتی تھیں۔ نائن الیون سانحے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ پاکستان اس کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ پڑوسی ملک ہونے کے ناتے افغانستان سے دہشت گردی کا ہیولا وطن عزیز آدھمکا اور یہاں بدترین بدامنی کا باعث بنا۔ معیشت کا بٹہ بیٹھ کر رہ گیا۔ کاروبار زندگی تباہ ہوکر رہ گیا۔ سرمایہ کاروں نے عدم تحفظ کے باعث بڑی تعداد میں یہاں سے بیرون ممالک اپنے کاروباروں کو منتقل کیا۔ معیشت کو اتنی زیادہ زک پہنچی کہ جس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی ہے۔ سب سے بڑھ کر عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو صحیح سلامت گھر واپس آسکیں گے یا نہیں۔ ہر طرف خوف و دہشت کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا تھا۔ 80ہزار شہری دہشت گردی کی کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے، ان میں بڑی تعداد سیکیورٹی فورسز کے شہید اہلکاروں اور افسران کی بھی شامل تھی۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد دہشت گردوں کے خاتمے کا مصمم ارادہ کیا گیا اور ان کے خلاف سیکیورٹی فورسز نے آپریشنز کا آغاز کیا۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردُالفساد کے ذریعے کتنے ہی دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گُھس کر مارا گیا۔ کتنے ہی شرپسند گرفتار کیے گئے۔ ان کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ ان کے ٹھکانے برباد کر دئیے گئے۔ آپریشنز کے بعد جو دہشت گرد بچ گئے، اُنہوں نے وطن عزیز سے فرار میں ہی اپنی عافیت جانی۔ ملک عزیز میں امن و امان کی فضا بہتر ہوئی۔ کاروبار زندگی معمول پر آنے لگا۔ عوام الناس نے سکون کا سانس لیا۔ اس کا سہرا پاک افواج سمیت تمام سیکیورٹی اداروں کے سر سجتا ہے، جنہوں نے دہشت گردی کے سنگین چیلنج سے احسن انداز میں نمٹتے ہوئے اس کا قلع قمع کیا۔ملک میں امن کی فضا بہتر تھی کہ پھر سے اسے نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ملک کے مختلف حصّوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں رونما ہورہی ہیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ کارروائیوں میں کئی سیکیورٹی اہلکار اور افسر جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے پھر سے قلع قمع کے لیے آپریشنز کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ مختلف حصّوں میں آپریشنز جاری ہیں، جن میں دہشت گردوں کو مارا اور گرفتار کیا جارہا ہے۔ کافی بڑی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ کئی علاقوں کو شرپسندوں سے کلیئر کرایا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی پشین اور پشاور میں سیکیورٹی فورسز نے 6انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) نے بلوچستان کے ضلع پشین میں کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 4دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کرلیا، ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق پشین کے علاقے سُرخاب مہاجر کیمپ میں کارروائی کی گئی، کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا، ترجمان کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں 4انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے، جن کی شناخت شکر دین عرف عمر خالد، امین اللہ، احمد اللہ اور عبدالفتح کے ناموں سے ہوئی ہے، ترجمان کی مطابق کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے سے ایک رائفل، 3ٹی ٹی پستول، 4دستی بم اور موٹر سائیکل برآمد کرلی گئی، ترجمان نے بتایا کہ دہشت گردوں کی لاشوں کو مزید کارروائی کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا، سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ ہلاک دہشت گرد پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ دہشت گردی کی مختلف سنگین وارداتوں میں ملوث تھے، دہشت گردوں کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے تحقیقات جاری ہے۔ ادھر سی ٹی ڈی نے لکی مروت میں بھی 2دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ ترجمان محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی) کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی ٹیپو گل گروپ سے ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ دہشت گرد بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ سمیت متعدد وارداتوں میں مطلوب تھے۔ ترجمان کے مطابق ہلاک دہشت گرد شہید ڈی ایس پی اقبال مہمند پر بم حملے میں بھی ملوث تھے جبکہ دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔ دوسری طرف کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب مل کالونی کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے پولیس اہلکار کو ڈیوٹی ختم کرکے گھر جاتے ہوئے فائرنگ کرکے شہید کر دیا اور فرار ہوگئے، شہید اہلکار کی شناخت اختر حسین کے نام سے کی گئی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعش تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کردی گئی۔ پاک افواج سمیت سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ پہلے بھی پاکستان دہشت گردی کے سنگین چیلنج سے تن تنہا نمٹ چکا ہے۔ اس بار بھی ان کا مکمل خاتمہ ان شاء اللہ جلد ہوگا اور اس حوالے سے بڑی کامیابیاں حاصل ہوں گی۔ سیکیورٹی اداروں کا ہر اہلکار اور افسر وطن سے بے پناہ محبت کرتا اور اس کے ایک ایک ذرّے کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ وطن عزیز کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے بہادر سپوت بڑی تعداد میں میسر ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہیں۔ کامیابیاں ملی ہیں اور آگے بھی بڑی کامیابیاں ملنے کی توقع ہے۔ ان شاء اللہ ارض پاک میں امن و امان کی صورت حال دوبارہ بحال ہوگی۔ شہری امن و سکون کی زندگی گزاریں گے۔ معیشت ترقی کی جانب گامزن ہوگی اور عوام خوش حالی سے ہمکنار ہوں گے۔
جان بچانے والی ادویہ کی بلیک میں فروخت
ملک عزیز میں ایسے ایسے سفّاک عناصر موجود ہیں، جن کے لیے دولت کمانا
ہی مطمع نظر ہوتا ہے، وہ اس کے لیے انسانی جانوں تک سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ کس کس کا ذکر کیا جائے، یہاں قصاب ذہنیت کے لاتعداد لوگ اپنے کاروباروں کو انتہائی درندگی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں اور غریبوں کی کھال تک اُتارنے کے درپے رہتے ہیں۔ جان بچانے والی ادویہ دُنیا بھر میں سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں، تاکہ لوگ با آسانی انہیں خرید کر اپنی زندگی کو بچا سکیں۔ وطن عزیز میں تو ابتدا سے ہی اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں جان بچانے والی ادویہ عرصہ دراز سے انتہائی گراں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے بیشتر لوگ آج کے دور میں اپنا علاج کرانے کے بجائے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ مہنگی ادویہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اُنہوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ پچھلے کچھ سال سے پے درپے جان بچانے والی ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان خاصی شدّت سے دِکھائی دیتا ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ بہت سی ادویہ مارکیٹ سے غائب ہیں اور بلیک میں انتہائی گراں نرخوں پر فروخت کی جارہی ہیں۔ کم قیمت ادویہ کے بھی بھاری بھر کم ریٹ وصول کرنے کے سلسلے نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کی مجرمانہ غفلت کے باعث کراچی میں ذیابیطس ( شوگر) کے مریضوں کے لیے انسولین مارکیٹ سے غائب کردی گئی جب کہ بلڈپریشر کو کنٹرول رکھنے والی ادویہ سمیت دیگر جان بچانے دوائیں بلیک مارکیٹ کے ذریعے من مانی قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں۔ ہول سیل اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والی ادویہ ناپید ہوتی جارہی ہیں، گزشتہ 6ماہ کے دوران ادویہ کی قیمتوں میں 50سی 70فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ ڈریپ حکام نے اس مسئلے کے سدباب کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب مرگی اور اینٹی ڈپریشن سمیت دیگر امراض میں استعمال کی جانے والی ادویہ کی قلت کے ساتھ مارکیٹ میں بہت مہنگی قیمتوں پر فروخت کی جارہی ہیں، ادویہ کی قلت اور بلیک میں فروخت کی جانے والی ادویہ غریب مریضوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔ مریضوں کے مطابق ادویہ مہنگی ہونے کی وجہ سے علاج ممکن نہیں رہا، امراض قلب میں استعمال کی جانے والی تمام ادویہ مریضوں کی پہنچ سے دُور ہوگئی ہیں۔ یہ اطلاعات تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہیں۔ آخر کب تک بلیک مارکیٹ کے ناہنجار لوگ مریضوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے۔ آخر کب غریبوں کو سستے داموں جان بچانے والی ادویہ میسر آئیں گی۔ اس جانب کوئی سنجیدگی سے سوچنے تک کو تیار نہیں۔ غریبوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ملک عزیز میں جان بچانے والی ادویہ کی سستے داموں اور با آسانی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی تاخیر اور غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button