بلاگتازہ ترینخبریں

مکتبہ ڈیپ شعور کی مغلظ برگیڈ

تحریر سلمان طارق

ایسی چیختے ہیں، ایسے آہ و بکا کرتے ہیں کہ کیا بتائیں جناب، مخالفین لطف اٹھانے کی بجائے گھگی باندھے تکتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے گالم گلوچ کرتے ہیں، ایسی مغلظ تربیت و "شعور” کا مظاہرہ کرتے ہیں، ایسی بد شگونیاں و بد دعائیں کرتے ہیں کہ کیا بتائیں جناب، مخالفین توبہ توبہ کرتے رستہ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ چھتوں سے ٹکراتے ہیں جناب چھتوں سے۔ غلطی سے سامنے آجاؤ تو غراتے ہوئے گھورنے لگتے ہیں، یکدم دانت باہر اور ہونٹ دانتوں سے اچک جاتے ہیں، منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے، آنکھوں سے خون ٹپکنے لگتا ہے۔ رگیں پھول کر کیچوؤں کی مانند ہو جاتی ہیں، ہاں بالکل جناب وہی، وہی بالکل "I am legend” والے زومبی کی طرح۔ عبرت کا مقام ہے جناب، عبرت کا۔
ویسے تو فسانوں اور تجربوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لیکن یہ جو ابھی چند برس پہلے ہی ایک تجربہ کیا گیا یہ باقی تمام تجربوں سے ذرہ مختلف تھا۔ اس میں ایک پوری کی پوری نسل کو ایسا تربیت یافتہ بنایا گیا کہ گالم گلوچ، عدم برداشت، باولا پن، بد زبانی، بد تہذیبی، بد تمیزی کی استعمال جیسے انکا حق ہو اور فرائض میں شامل ہو گیا ہو۔ اس شعوری سفر میں ایلیٹ کلاس کا ایک مؤثر حصہ تو تھا ہی مگر ایک بڑی تعداد ایسی مڈل کلاس کی ہے جو لاشعوری طور دہائیوں سے ایک عجب سے احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا طبقہ ہے جسے ایلیٹ کلچر میں کشش محسوس ہوتی ہے اور وہ اس کلچر کو اپنانا بھی چاہتا ہے، کیوں کہ اسکا لاشعور اسے اس "ڈولچے اینڈ گبانا” والی کلاس کو برتر کلاس تصور کرواتا ہے، یعنی کہ وہ لاشعوری طور پر ہی اس کمتری کے احساس میں مبتلا ہے جو اسے بتاتا ہے کہ برتر کلاس کونسی ہے یعنی اشرافیہ، حالاںکہ انسانی قدروں کو بنیاد بنائیں تو حقیقت اس کے متضاد ہوتی ہے۔ ایسے لوگ نہایت غیر سنجیدہ اور بے مقصد ہوتے ہیں۔ گزشتہ دس سال ان لوگوں کو قریب سے دیکھنے، سننے، سمجھنے، ناچتے، گاتے اور پھر چیختے، چلاتے، دھاڑتے، روتے، ماتم کرتے دیکھا ہے۔

کرسی چھننے پر اس شعور کو مزید دوام ملتا ہے، قریب قریب ‘نبوت’ کے لایا جاتا ہے۔ ذہنوں پر ایسا سحر طاری ہوتا ہے کہ وہ مشہور "پرورٹ آف حورز” مولوی بھی ایمان لانے سے نہیں بچ پاتا۔ آنکھوں کے سامنے توہین مذہب ہو، یا دیوار پہ لکھا جھوٹ اور اس جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا مینار۔ جذبات کو ابھارنا، اکسائے جانا، جنونی بننا، راہ چلتے کسی مخالف کو لفظی دہشت گردی کا نشانہ بنانا روزمرہ کی روٹین کا حصہ بن گیا ہے۔ انکے گھروں کی بیٹھکوں میں آزادی اظہارِ رائے اور متضاد خیالات یا تکنیکی بحث کی اجازت نہیں ہوتی۔ بچوں کو گُھٹی دیتے ہی چور چور ڈاکو ڈاکو، تیری ماں تیری بہن وغیرہ وغیرہ” کے نعرے سکھانے کا سلسلہ گزشتہ دس سالوں سے جاری ہے۔ اس نسل کی نئی نسل نوجوانی کی طرف بڑھ رہی ہے، جو ذہنی طور پر زیادہ مغلظاتی طاقتوں کی حامل ہوگی۔

اب ہوا یہ ہے کہ جن لونڈے لپاڑوں نے ایسی پود تیار کی تھی انہوں نے اب "اصلی سکون قبر” والے کو جب سے اٹک میں "سکون” دیا ہوا ہے تب سے حوصلے اور برداشت سے عاری ” مکتبہِ ڈیِپ شعور” سے وابستہ ان بدوؤں نے ملک کو بد دعائیں دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔بحرحال ان بد دعاؤں سے قطع نظر معاملات اور مملکت کی درستگی کے لئے اب آخری رستہ ہی باقی بچا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اب اگر اُن لونڈوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا اور سب کو یہ خود نہیں بتایا جاتا کہ کون کہاں پر ہزار ہزار بانٹتا رہا، کون کہاں پر دو دو سال کی محنت کرتا رہا، کون کہاں پر ڈیم بناتا رہا اور یہ سب کہاں سے ڈکٹیٹ ہوتا رہا اور کس باجے سے باجہ بجتا رہا۔ تو تب تک یہ "مکتبہِ ڈیپ شعور” سے تعلق رکھنے والے مغلظ مجاہد جھوٹ اور پراپیگنڈے سے اپنی محبت پر ہٹ دھرمی قائم رکھیں گے۔ اور یقینا اس کے اثرات دہائیوں تک معاشرت کو بھگتنا پڑیں گے۔
مسائل کے حل کا آغاز اب صرف ایک ہے۔ "لونڈوں” کو اپنا خود کا گریبان چاک کرنا ہوگا۔ ورنہ مملکت نہیں رہے گی، اور اگر ملکت نہ رہی تو انکے ڈی ایچ ایز بھی نہیں رہیں گے۔ ڈی ایچ ایز بچانے ہیں تو گریبان چاک کرنا ہوگا۔ اسکے علاوہ اب کوئی حل نہیں

جواب دیں

Back to top button