معیشت بحالی: آرمی چیف کی تعاون کی یقین دہانی

ملکی معیشت کی صورتحال اس وقت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ حالات روز بروز سنگین شکل اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ پچھلے 5، 6برسوں کے دوران وقت گزرنے کے ساتھ صورتحال مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی گئی۔ معیشت کا پہیہ نا صرف سست روی کا شکار ہوا بلکہ بے روزگاری کا بدترین طوفان بھی اسی دوران آیا، لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ کئی کمپنیوں اور فیکٹریوں کو اپنے کاروبار کو محدود کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بڑا اضافہ ہوا۔ پاکستانی روپیہ پچھلے پانچ، چھ سال میں بدترین بے توقیری کا شکار ہوا ہے۔ 100روپے کا ڈالر آج 300روپے کی حد بھی عبور کر چکا ہے اور روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا اور پاکستانی روپے کو بُری طرح چت بھی کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ ایک زمانے میں پاکستانی روپیہ ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی کہلاتا تھا۔ یہ اب اپنی قسمت پر ماتم کناں ہے۔ اس عرصے میں گرانی میں ہوش رُبا اضافہ ہوچکا ہے اور وہ دو تین گنا بڑھ چکی ہے۔ ہر شے کے دام دُگنے اور تگنے ہوچکے ہیں۔ آٹا، چاول، چینی، چائے کی پتی، تیل، گھی، دودھ، دہی، دالیں وغیرہ۔ سبھی کے نرخ آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں۔ بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کے نرخ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ بجلی بلوں نے تو غریبوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر میں احتجاج کے سلسلے دراز ہیں۔ عوام کے لیے اس صورت حال میں روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد مشکل ہے، کیونکہ اُن کی آمدن وہی ہے جب کہ اخراجات دو تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ بہرحال معیشت کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے خوش کُن امر یہ ہے کہ سابق حکومت اپنے اقتدار کے آخری دن تک معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے میں مصروفِ عمل رہی ہے۔ اس دوران اُس نے چند مشکل فیصلے ضرور کئے ہیں، جن کے مثبت اثرات آئندہ وقتوں میں ظاہر ہوں گے۔ گو اس دوران مہنگائی کے طوفان میں شدّت آئی۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچے معیشت کی بحالی کی جانب سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔ نگراں حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ سابق حکومت کے معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کو اُسی طرح جاری و ساری رکھے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں کو تحفظ اور سہولتوں کی فراہمی ناگزیر محسوس ہوتی ہے، تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری آئے اور روزگار کے مواقع کشید ہوں۔ ترقی کی شاہراہ پر سفر کو تیزی سے طے کیا جائے۔ اسی ضمن میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول اور سہولتیں دینا حکومت کی ذمے داری ہے۔ انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں نگران وفاقی وزرا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر عسکری حکام بھی شریک ہوئے، نگران وزیراعظم اور کابینہ کو کونسل سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ وزارت فوڈ سیکیورٹی، وزارت انفارمیشن
ٹیکنالوجی اور معدنیات کی سرمایہ کاری سے متعلق امور پر اجلاس میں بریفنگ دی گئی، نگراں وزرا اور عسکری حکام کی جانب سے سرمایہ کاری کے شعبوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری سے معاشی حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول اور سہولتیں دینا حکومت کی ذمے داری ہے، پہلی بار ہے کہ ملکی معیشت کے لیے ایک وژن دکھائی دے رہا ہے جب کہ نجی ٹی وی کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے معیشت کی بحالی کے لیے نگراں حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرا دی، انہوں نے کہا کہ پاک فوج پاکستان کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ اس موقع پر نگران وزیراعظم نے ہدایت کی کہ جن منصوبوں کی نشان دہی کی گئی، ان کی جلد تکمیل یقینی بنائی جائے، ایپکس کمیٹی نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیی ایس آئی ایف سی کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اعلامیہ کے مطابق نگران وزیراعظم نے خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے موثر کام کی تعریف کی، ایپکس کمیٹی نے کونسل کی عالمی سطح پر رسائی حاصل کرنے کی حکمت عملی اور برادر، دوست ممالک کے ساتھ روابط کو سراہا۔ اجلاس میں سعودی عرب اور اسلامک آرگنائزیشن فار فوڈ سکیورٹی کے اعلیٰ سطح کے وفود کے دوروں کو نتیجہ خیز قرار دیا گیا، ایپکس کمیٹی نے ملکی معیشت کی بحالی کی طرف مثبت رفتار کو برقرار رکھنے میں اپنے عزم اور حمایت کا اظہار کیا۔ ایپکس کمیٹی نے زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پچھلی حکومت کے منظور کردہ منصوبوں کی بھی توثیق کی، نگران وزیراعظم نے شناخت شدہ منصوبوں کی تکمیل میں تیزی لانے کی ہدایت کی۔ معیشت کی بحالی اور بہتری کے حوالے سے اس قسم کے اجلاسوں کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی جانب سے معیشت کی بحالی کے لیے نگران حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی خوش آئند ہے، آرمی چیف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاک فوج پاکستان کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ ملک پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو افواج پاکستان سب سے پہلے اُس کے حل کے لیے موجود ہوتی ہے۔ معیشت کی بحالی کے ضمن میں بھی افواج پاکستان کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ افواج پاکستان کے تعاون سے حکومت بہتر سمت میں قدم بڑھاسکتی اور اس کے ثمرات حاصل کر سکتی ہے۔ حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کو وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی خاطر سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ اُن کو ہر طرح کی سہولت فراہم کی جائے۔ اُن کو سرمائے کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جائے۔ سکیورٹی کے حوالے سے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر تمام شعبوں میں صنعتوں کو سستی توانائی کی فراہمی یقینی بنائی جائے، تاکہ معیشت کی بحالی کے لیے کیے گئے اقدامات کے ثمرات صحیح معنوں میں ظاہر ہوسکیں۔ وطن عزیز قدرت کی انمول نعمتوں سے مالا مال ہے۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں قدرت کے عظیم خزینی مدفن ہیں۔ ان کو بروئے کار لایا جائے۔ بیرونی قرض سے جان چھڑا کر خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہوا جائے تو چند ہی سال میں بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
بجلی بلوں کیخلاف عوامی احتجاج میں تیزی
ملک عزیز میں اس وقت ہر سُو احتجاج کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ اس بار بجلی کے بل موصول ہوتے ہی عوام الناس پر برق آگری ہے۔ اپنی آمدن سے زائد ماہانہ بجلی بل دیکھ کر غریبوں کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بجلی انتہائی مہنگی ہے۔ چین، بھارت، بنگلہ دیش، ایران وغیرہ میں بجلی کے ماہانہ بل وہاں کے عوام پر اس لیے گراں نہیں گزرتے کہ بجلی کے ریٹ انتہائی کم ہیں، عوام اس سہولت کے بدلے جن کی ادائیگی خوش اسلوبی سے کرتے ہیں۔ دوسری جانب وطن عزیز میں دیکھا جائے تو بجلی نا صرف انتہائی گراں ہے بلکہ لوڈشیڈنگ کے سلسلے بھی دراز رہتے ہیں۔ گرمیاں عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتیں۔ گھنٹوں بجلی غائب رہتی اور لوگ بلبلاتے رہتے ہیں۔ بجلی اتنی مہنگی ہے کہ چھوٹے چھوٹے دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے ماہانہ بجلی بل بھیجنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ یہ صورت حال عرصہ دراز سے درپیش ہے۔ سستی بجلی کے حصول کو یقینی بنانے اور بجلی کے سستے ذرائع سے پیداوار حاصل کرنے کی جانب کسی حکومت نے توجہ نہیں دی، بلکہ جب دل چاہا عوام پر بجلی کی قیمت بڑھا کر بوجھ منتقل کر دیا گیا۔ پچھلے دنوں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے اور اس پر شدید احتجاج دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بجلی بل نذر آتش کیے جارہے ہیں۔ تاجر برادری کی جانب سے نا صرف سخت احتجاج ہورہا ہے بلکہ عوام بھی پیچھے نہیں رہے ہیں اور ملک کے بہت سے مقامات پر بجلی کے بل تک نذرآتش کیے گئے ہیں۔ یہ احتجاج کا سلسلہ پچھلے تین چار روز سے جاری ہے اور گزشتہ روز بھی ملک بھر میں شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔ ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ہوش رُبا اضافے کے خلاف عوامی احتجاج میں تیزی آگئی، گزشتہ روز بھی ملک کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور شرکاء نے بجلی کے بل جمع نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے بلوں کو نذر آتش کیا، کئی مقامات پر تاجروں نے شٹرڈائون ہڑتال کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا جب کہ بھاری بلوں کے باعث نوجوان اور ایک خاتون نے خودکشی کرلی۔ احتجاج کے دوران مظاہرین کا کہنا تھا کہ بجلی کے بل بھریں یا بچوں کا پیٹ پالیں، سرکاری ملازمین نے بھی بجلی بلوں میں اضافے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، احتجاج کے باعث مختلف شہروں میں ٹریفک جام کی صورت حال رہی۔ پورے ملک میں تاجر برادری بھی سراپا احتجاج رہی۔ اُن کی جانب سے بجلی بلوں میں اضافہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ بجلی کے اتنے زیادہ بل ظالمانہ اقدام ہی قرار پاتے ہیں۔ ان میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ قوم مزید اس گراں بجلی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ حکومت کو بجلی کے سستے ذرائع بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اور اُنہی سے بجلی کشید کی جائے۔ بجلی کے مہنگے ذرائع سے جان چھڑائی جائے۔ ہوا، سورج اور پانی سے زیادہ سے زیادہ بجلی کی پیداوار حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں۔ کچھ مہینوں میں ہی اگر اس حوالے سے راست اقدامات کر لیے گئے تو صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ نیک نیتی اور عوامی خدمت کے جذبے کے تحت اس جانب قدم بڑھائے جائیں تو حالات میں بہتری ممکن ہے۔