ColumnImtiaz Ahmad Shad

بے قابو عوام۔۔ ریاست خطرے میں

امتیاز احمد شاد
اگست میں بجلی کا بل دیکھ کر عوام کی چیخیں نکل آئیں، بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ملاکر عوام کو فی یونٹ بجلی 52روپے تک پڑنے لگی ہے۔ اس ماہ بجلی بلوں میں صارفین پر 15روپے فی یونٹ تک کا اضافی بوجھ ڈالا گیا، یکم جولائی کو بجلی کی قیمت فی یونٹ ساڑھے 7روپے تک بڑھائی گئی لیکن اس کی مکمل وصولی نہ ہوئی، پھر اگست میں صارفین سے 2ماہ کی یکمشت وصولی کرلی گئی۔ ایک روپیہ 81پیسے فی یونٹ کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بھی وصول کی جارہی ہے، رہی سہی کسر بجلی پر عائد ٹیکس نے پوری کر دی، مجموعی طور پر ایک سال میں بجلی صارفین پر ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا بوجھ منتقل کر دیا گیا۔ حکومت اور مراعات یافتہ طبقہ کو ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں ہوا کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ بہت کم ماہانہ آمدنی والے عوام ہی کیلئے نہیں متوسط طبقے کیلئے بھی یہ بوجھ برداشت سے باہر ہے۔ متعدد بار عوام کو سیاسی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ اتنی تعداد میں سڑکوں پر نہیں آئے جتنی بڑی تعداد میں اب نظر آرہے ہیں۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی کال کے بغیر لوگ اپنے طور پر گھروں سے نکل آئے ہیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں آئے روز بہت بڑے اور جذباتی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بھی اسی انداز کے بلز آنا ، بے سہارا عوام کے غم و غصے کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ یہ مظاہرے ریاست پاکستان کی سلامتی کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ پہلے سے چاہتے ہیں کہ انتشار کو ہوا دی جائے اور پاکستان جتنا غیر مستحکم ہو سکتا ہے اسے کیا جائے، یہ کوشش اندرونی اور بیرونی حلقوں کی طرف سے بہت پہلے سے کی جا رہی ہے مگر حکومت کو ابھی تک صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں اور وہ عوام کی چیخ و پکار سے بے نیاز پہلے سے طے شدہ راستوں پر چلتے ہوئے روز مرہ کی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے حکومت کے ساتھ مراعات یافتہ طبقہ بھی عوامی غیظ و غضب کا شکار ہو گا، یہ طبقہ جانتا نہیں کہ عوام کو اگر جینے کی سہولت نہ دی گئی تو پھر یہ بھی چین سے نہیں رہ سکے گا۔ عوام کا ریلا سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ پاکستان کے مختلف طبقوں نے اپنے حقوق کے لئے تنظیمیں اور انجمنیں بنا رکھی ہیں۔ کسان، مزدور، تاجر، وکیل اور ڈاکٹر اگر اس مشترک پریشانی کے لئے متحد ہو جاتے ہیں اور وہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں تو معمولات زندگی شدید متاثر ہوں گے۔یاد رہے کہ سیاسی قیادت کے بغیر احتجاجی مظاہرے کنٹرول سے باہر ہو جایا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کسی صورت بھی ریاست کی تباہی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔ اس دفعہ پہلی بار عوام بھی منظم ہو رہے ہیں اور لگتا ہے ان میں مزید ظلم سہنے کی سکت نہیں رہی۔ حکومت کیلئے اس کے بغیر چارہ نہیں رہے گا کہ وہ مراعات یافتہ سے ان کی وہ مراعات واپس لے، جس کیلئے عوام کا خون چوسا جاتا ہے۔ وہ ان طبقوں سے زبردستی سارے واجبات وصول کرے جن کی وجہ سے سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ حکومت بیوروکریسی، وزرائ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان کو وہ سہولتیں نہ دے جن کی وجہ سے عوام کی شامت آتی ہے۔ مفت بجلی کی فراہمی کو فوری روک کر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ اس بات سے کون واقف نہیں کہ دفاتر میں صاحب کے آنے سے پہلے ہی سارے اے سی آن کر دیئے جاتے ہیں تاکہ جب صاحب تشریف لائیں تو انہیں گرم ہوا نہ لگے، اسی طرح سارے مال سینٹر بھی ایئرکنڈیشنڈ ہیں، سرکاری عمارتیں ہمہ وقت ٹھنڈی ٹھار رہتی ہے۔ انتہائی مہنگی کاریں سستے لوگوں کو دی جاتی ہیں بہت سے محکموں کے ملازمین کیلئے بجلی کے جتنے یونٹ فری ہیں اس کے بعد برائے نام ادائیگی باقی رہ جاتی ہے۔ اگر اس عیاشی پر مبنی غیر ہموار نظام پر نظرثانی کی جائے تو عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے ورنہ ایک وقت آئے گا اور مجھے وہ زیادہ دور نہیں لگتا جب مصائب میں گھری عوام کی نیندیں چرانے والے خود بھی چین کی نیند نہیں سو سکیں گے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ہنگامی اجلاس بلایا مگر یہ اجلاس بھی مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرنے اور بجلی بلوں میں کمی لانے کے لئے بے معنی ہے، نگران سیٹ اپ کے پاس وہ اختیارات نہیں ہیں جو عوامی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں۔ بجلی کا بوجھ کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بجلی کے بلوں میں 30فیصد مختلف حکومتی ٹیکسز ہیں جنہیں کم کر کے عوام کو فوری ریلیف دیا جا سکتا ہے، اس کمی کو براہ راست ٹیکس لگا کر پورا کیا جاسکتا ہے۔ بلوں میں ایک حصہ 18 فیصد جی ایس ٹی کا ہے، اس میں کمی کے لیے عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) سے دوبارہ بات چیت کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ مگر یہ کام نگران حکومت کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تو عوام کو ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ بات تو واپڈا حکام بھی مانتے ہیں کہ بد انتظامی وہ بنیادی نقطہ ہے جس نے مہنگی بجلی کو مزید مہنگا کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے سیکرٹری پاور نے بھی وضاحت دی ہے کہ پاور سسٹم بہت سی خرابیوں کا شکار ہے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، بجلی چوری ہورہی ہے، گردشی قرض 2300ارب روپے ہے۔ ملک میں 250ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے، نیٹ میٹرنگ بھی کیپیسٹی پیمنٹ میں اضافے کا ذریعہ ہے، نیٹ میٹرنگ سسٹم ختم کرنا پڑے گا۔ جب کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہے۔ اگر ان باتوں کو مان لیا جائے جو کہ کافی حد تک سچ ہیں تو کیا موجودہ نگران حکومت کے پاس اس کی کوئی سبیل ہے؟ میں نہیں جانتا یہ سوال کتنے اہم ہیں یا غیر اہم ہیں مگر ان سے عوام کی بے چینی کا اندازہ ضرور ہوتا ہے میری گزارش صرف اتنی ہے کہ جو ادارے خسارے میں جا رہے ہیں ان کے کئی سو ارب کا خسارہ عوام سے وصول نہ کیا جائے، عوام پہلے ہی مشکلات میں ہیں، اشیا ء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، تعلیم، صحت اور روزگار کب کے ناپید ہو چکے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی افرا تفری بام عروج تک پہنچ چکے۔ وکلا تحریک کا اعلان کر چکے، سیلاب کے مارے کسان تیار بیٹھے ہیں جب کہ عام عوام سڑکوں پر ہے۔ کسی سیاسی رہنما کی اپیل کے بغیر بہت سے شہروں سے بجلی کے بل جلائے جانے کی خبروں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہیں۔ میڈیا اگر مینج بھی ہو جائے تو سوشل میڈیائی دور میں اس طوفان کو روکنا نا ممکن ہو گا۔ مقتدر حلقوں کو کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ یاد رکھیں عوامی غصے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا لیڈر قید خانے میں جب کہ دوسری جماعت کا رہنما وطن عزیز سے دور بیٹھا ہے۔ شتر بے مہار عوام جب انتقامی جذبے سے لبریز سڑکوں پر ہو گی تو ریاست کی چولہیں ہل کر رہ جائیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button