CM RizwanColumn

’’ ملک کے خلاف جنگ ‘‘

سی ایم رضوان
ابتدا کے دو تین سال نکال کر اگر ہم اپنی قومی زندگی کے سابقہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ کو ایمانداری سے دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ہم خود اپنے ہی ملک کے خلاف ہمیشہ سے مصروف جنگ رہے ہیں۔ ہمیں صاف نظر آئے گا کہ یہاں من حیث المجموع وکیل نے قانون کے خلاف، استاد نے تعلیم کے خلاف، پولیس نے امن کے خلاف، ملائوں نے دین کے خلاف، جج نے آئین کے خلاف، تاجر نے گاہک کے خلاف، واپڈا اور ایس این جی پی ایل نے اپنے صارفین کے خلاف، سرکاری اہلکاروں نے سائلوں کے خلاف، بچوں نے والدین کے خلاف، والدین نے اولاد کے خلاف، مالک نے نوکر کے خلاف نوکر نے مالک کے خلاف، مل انتظامیہ نے مزدور کے خلاف، مزدور نے ملز کے خلاف القصہ ہر ذمہ دار نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کے خلاف ایک مسلسل جنگ برپا کر رکھی ہے۔ نظر آرہا ہے کہ ایماندار یہاں خائن ہے۔ عہدیدار یہاں مفاد پرست ہے۔ سیاستدان یہاں بدعنوان ہے۔ قانون دان یہاں چور اچکا ہے۔ ڈاکٹر یہاں قصائی ہے۔ قصائی یہاں انسان دشمن ہے۔ گوالا پانی بیچتا ہے۔ خاکروب صفائی نہیں کرتا۔ کھانے پینے کی ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ سپاہی محافظ نہیں ہے۔ یہاں مجموعی طور پر ہر محافظ ڈاکو، قاتل، لٹیرا اور غاصب ہے۔ سرکاری اہلکار فرض ناشناس ہے، ہر حاکم ظالم اور ہر منصف غاصب بن چکا ہے۔ وطن فروشی ماں بہن کی دلالی سے قبیح جرم ہے اور یہاں مال بنانے کے چکر میں اس دلالی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ چند ٹکوں کی خاطر ملک و قوم کا سودا کر لینے پر آمادہ لوگوں کی بہتات ہے۔ ایسے میں کسی سے بھی بھلے کی توقع عبث ہے۔ اچھے دنوں کی امید رکھنا بھی سراسر جھوٹ ہے۔ کسی بھی شخص، طبقے یا رشتے پر اعتبار کرنا حماقت ہے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ چور، ڈاکو، راشی، خائن اور لٹیرے عناصر کی یہاں پوجا ہوتی ہے۔ نسبتاً اصول پسند، دیانتدار اور محب وطن افراد یہاں ہر شعبہ زندگی میں مطعون، ناکام اور راندہ درگاہ ٹھہرائے جاتے ہیں۔ فرض شناسی جرم بن گئی ہے۔ بدعہدی خوبصورتی گردانی جاتی ہے۔ بے ضمیری ہر شعبہ زندگی میں قابل ستائش قرار پاتی ہے۔ باضمیر مسلسل ناکامیوں اور محرومیوں سے ڈسے جاتے ہیں۔ کیا یہ ہر طرف سے ملک کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ کیا یہ جنگ ہم سب نے پہلے دن سے ہی اپنے ملک کے خلاف جاری نہیں رکھی ہوئی۔ کیا یہ ملک کے خلاف کھلی جنگ نہیں کہ ملک بھر میں سب اصولوں کی کتابیں طاق میں بند کر دی گئی ہیں اور ہر شعبہ حیات میں جھوٹ حکومت کر رہا ہے۔
ملک کے خلاف ایک عدد بڑی اور حتمی جنگ سیاست کے میدان میں پچھلے پانچ سال سے جاری ہے۔ اس جنگ کے سب سے بڑے شمشیر زن کو یہاں کی سیاست کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا جاتا ہے حالانکہ وہ خود جھوٹ پر فخر اور یوٹرن پر اصرار کرتا ہے۔ اسی لیڈر کی طفیل ملک بھر میں بے شرمی دلیل بن گئی ہے اور حیا داری ذلیل ہو رہی ہے۔ یک طرفہ طور پر اپنی ہی فوج پر حملہ کرنے والا محب وطن سمجھا جا رہا ہے اور وطن کی حفاظت میں اپنی قیمتی جانیں جان آفرین کے سپرد کر دینے والے شہدا کا تقدس سرعام پامال کرنے کو حق اظہار رائے سمجھ لیا گیا ہے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ وطن سے صریحاً غداری سے عبارت سانحہ نو مئی کو فراموش کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا یہ مک کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ نہیں کہ سانحہ نو مئی کو انسانی حقوق کی منافقانہ چھتری کا سایہ فراہم کرنے کی ناکام کوشش کی جائے۔ کیا یہ سابقہ شہباز حکومت کا جرم نہیں کہ انہوں نے اس سانحہ کے ملزمان کے خلاف مبنی بر انصاف قانونی کارروائی میں تاخیر اور تساہل کا مظاہرہ کیا۔ حالانکہ اور تو اور خود عمران خان کے خلاف کم از کم تین ایسی ایف آئی آرز درج شدہ ہیں جو نو مئی کے ہنگاموں، اموات اور توڑ پھوڑ کے تناظر میں درج کی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک مقدمے کے تحت انہیں نو مئی کو لاہور میں کور کمانڈر ہاس پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت بھی کی گئی تھی تاہم عمران خان نے جے آئی ٹی کو پیشکش کی تھی کہ وہ سوالنامے یا بذریعہ ویڈیو لنک ان سے زمان پارک سی تحقیقات میں شمولیت اختیار کر سکتے تھے لیکن ایک سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے جبکہ عمران خان تو نو مئی اور اس کے بعد چند دن تک زیر حراست تھے اور براہ راست کسی بھی توڑ پھوڑ کا حصہ نہیں تھے۔ لاہور کے تھانہ سرور روڈ میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کے خلاف درج ایف آئی آر میں 302اور 109سمیت 20دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ ان میں انسداد دہشت گردی کی ناقابل ضمانت دفعات بھی شامل ہیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق نو مئی کو پی ٹی آئی کے تقریبا 1500کارکنان نے کور کمانڈر ہاس لاہور کی جانب پرتشدد احتجاج شروع کیا۔ متن میں کہا گیا ہے کہ یہ کارکنان مسلح تھے اور اسلحے کے علاوہ ان کے پاس ڈنڈے اور پٹرول بم بھی تھے جبکہ یہ راستے میں جلائو گھیرائو کر رہے تھے اور پولیس اہلکاروں پر حملہ آور بھی ہوئے تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق مشتعل ہجوم میں موجود کارکنان کہہ رہے تھے کہ ’’ ہماری قیادت، جس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، فرخ حبیب، حماد اظہر، مسرت جمشید چیمہ، جمشید چیمہ، زبیر نیازی، اسد زمان، مراد سعید، علی امین گنڈاپور اور دیگر شامل ہیں، نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم خصوصاً عسکری اداروں کے دفاتر، اہم اور حساس عمارات کو نشان عبرت بنا دیں‘‘۔ اس ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کارکنوں کے اس مشتعل ہجوم میں شامل پی ٹی آئی لیڈران نے اسلحے سے فائرنگ کی جس سے دو افراد ہلاک بھی ہوئے۔ ایف آئی آر کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امن عامہ کو پامال کیا، پولیس ملازمین اور افسران پر جان لیوا حملے کیے اور عسکری قیادت کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ بھی درج ہے کہ مشتعل کارکنان نے ’’ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے، عمران کو رہا کرو‘‘ جیسے نعرے لگائے اور علاقے میں خوف و ہراس، دہشت پھیلائی۔ عسکری تنصیبات پر حملے کا دوسرا کیس لاہور ہی کے تھانہ گلبرگ میں درج ہے۔ اس مقدمے کی دفعات میں بھی 302، انسداد دہشت گردی اور معاونت جرم کی دفعات سمیت 19دفعات شامل تھیں۔ متن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران، کارکنان کہہ رہے تھے کہ انہیں عمران خان، شاہ محمود قریشی، مراد سعید، اسد عمر اور کور کمیٹی کے دیگر ممبران نے ہدایت کی تھی کہ ہر طرف آگ لگا دو اور عسکری املاک کی توڑ پھوڑ کرو تاکہ حکومت پر دبا ڈالا جا سکے۔ ایف آئی آر میں عسکری ٹاور پر مظاہرین کے حملے کو باہمی منصوبہ بندی اور گھنائونی سازش قرار دیا گیا ہے۔ لاہور ہی کے تھانہ شادمان میں بھی انسداد دہشت گردی اور معاونت جرم سمیت متعدد دفعات کے تحت پی ٹی آئی قیادت کے خلاف تھانہ شادمان پر حملے کا مقدمہ درج ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان نے مرکزی قیادت کے اکسانے پر یہ حملے کیے اور مرکزی قیادت کو عمران خان نے گرفتاری سے پہلے اداروں کے خلاف مجرمانہ سازش کی ہدایت دے رکھی تھی اور ان کارروائیوں کے لئے قرآن پاک پر حلف بھی لیا گیا تھا۔ راولپنڈی کے تھانہ آر اے بازار میں درج جی ایچ کیو پر حملے کی ایف آئی آر میں عمران خان کو شامل تفتیش کرنے یا اس ہجوم سے تعلق یا ہجوم کو ہدایات دینے کی مد میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ملک کے خلاف جنگ نہیں۔ اب تو انسداد دہشت گردی عدالت کے حکم اور اجازت پر جے آئی ٹی نے شاہ محمود قریشی، اٹک جیل میں قید عمران خان سے مختلف سوالات کے ذریعے تفتیش کر کے ان کے خلاف پہلے سے درج مذکورہ ایف آئی آرز میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 121، 121 اے اور 131بھی شامل کر دی ہیں۔ یہ دفعات ان ملزمان کے خلاف لگائی جاتی ہیں جو ملک کے خلاف جنگ برپا کریں۔ اس جنگ کی سازش اور منصوبہ بندی کریں۔ اس جنگ پر لوگوں کو آمادہ کر کے حملے پر اکسائیں اور ملزمان کی سہولت کاری کریں۔ ان دفعات سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کے خلاف اس حتمی اور تباہ کن جنگ کا سب سے بڑا، متحرک، عامل اور طاقتور شخص عمران خان خود ہے۔ جس کے خلاف فوری سخت ترین کارروائی ضروری ہے۔ ورنہ یہ خطرہ جب تک ملک میں موجود ہے۔ ملک میں امن نہیں ہو سکتا۔
ملک کے خلاف ایک جنگ واپڈا نے بھی بے تحاشہ، بے سروپا اور حد سے زیادہ بجلی کے بل بھیج کر شروع کر رکھی ہے۔ اس جنگ کے برپا کرنے میں بھی شاید واپڈا میں موجود کسی عمرانڈو افسر کا ہاتھ ہے۔ جس کو منظم طریقے سے سول نافرمانی کی تحریک اور فسادات پر مبنی شدید احتجاج کے لئے بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ ورنہ پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام اس قدر منظم احتجاج کے عادی نہیں۔ نگران حکومت کو ان معاملات کی مذکورہ پہلوں سے تحقیقات کرنے کے ساتھ عوام کو بجلی کے بلوں میں فوری ریلیف دینے کو یقینی بنانا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button