ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتی مسلمانوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات

حبیب اللہ قمر
امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں 1947ء سے لے کر اب تک 50ہزار مساجد، 20ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں ہندو انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ وشوا ہندو پرشاد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔ لو جہاد، گئو رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوئوں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 1992ء کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ہزاروں مسلمان ہندو انتہاپسندوں کے حملوں میں شہید ہوئے تھے۔ اس کے بعد شاہی عیدگاہ مسجد، شمسی مسجد اور گیان واپی مسجد سمیت درجنوں عبادت گاہوں پر ہندو انتہا پسندوں کے قبضے کے دعوے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہندو انتہا پسندوں نے 2017ء میں مشہور زمانہ دنیا کے عجائب میں شامل تاج محل پر بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بھارتی فوج نے 1984ء میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر ٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کردی تھی جس کے بعد سکھوں کے پر ہونے والے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح منی پور میں جاری حالیہ فسادات میں 400سے زائد چرچ نذر آتش کیے جا چکے ہیں جبکہ 2008ء میں ہندو انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے 600گائوں اور 400چرچ جلا ڈالے تھے۔ بھارت میں پچھلے کچھ عرصہ کے دوران مسلمانوں پر ہندو انتہاپسندوں کے بہیمانہ تشدد کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ابھی ایک دن قبل ہی بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ میں ایک پچاس سالہ مسلمان شمشاد احمد کو ہندو انتہا پسندوں نے بدترین تشدد کر کے شہید کر دیا ہے۔ اس سے قبل ریاست اترپردیش میں بھی دو مسلمان میاں بیوی عباس اور قمرالنساء کو شہید کیا گیا ہے، جس پر مقامی مسلمان تاحال سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت میں پچھلے کچھ عرصہ کے دوران سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن پر ہندوستانی مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مختلف شہروں میں پیش آنے والے واقعات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر میں انصاف پسند حلقوں نے ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گردی کی مذمت کی جس کے بعد تھوڑی دیر کیلئے چند ایک انتہاپسندوں کو گرفتار کیا گیا تاہم کچھ دیر بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا کہ ان کے خلاف کسی نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی اس لیے انہیں حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔ ان اہلکاروں کی انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز بھی ریکارڈ پر ہیں لیکن کسی کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بھارت میں جب سے شہریت کا متنازع قانون منظور ہوا ہے، اس وقت سے ہندو انتہاپسندوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور بھارتی مسلمان خود کو بہت زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ بھارت میں ہندو دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ سارا کھیل منصوبہ بندی کے تحت کھیلا جارہا ہے اور زیادہ تر واقعات اترپردیش، ہریانہ ، مدھیہ پردیش، جھاڑ کھنڈ، راجستھان، بہار اور دوسری ریاستوں کے ان علاقوں میں پیش آرہے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔ جب سے انڈیا میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت آئی ہے مسلمانوں اوروہاں بسنے والے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور انہیں سازش کے تحت تعلیم، صحت اور دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیچھے دھکیلنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ مودی سرکار کے دور حکومت میں ہندو انتہا پسندی کے واقعات جنہیں ہجومی تشدد کا نام دیا جاتا ہے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہندو انتہاپسند ہتھیاروں سے لیس ہو کر نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور خود ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں تو ہندوستانی عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟ نام نہاد قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں غائب ہو جاتے ہیں اور سب کچھ سامنے آنے کے باوجود بھی مجرموں کو گرفتار کر کے سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، ایجنسیوں اور دوسرے اداروں میں ہندوانتہاپسندوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو فسادات پھیلانے والوں کی موقع پر سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور اگر کبھی تشدد کا شکار مسلمانوں کو تھانوں میں لایا جائے تو وہاں تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہیں بروقت ہسپتالوں تک بھی نہیں پہنچایا جاتا۔ جن انتہاپسندوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اور وہ سینکڑوں مسلمانوں کا قتل کر چکے ہیں انہیں ہندو انتہا پسند تنظیمیں اپنے جلسوں میں بلاتی ہیں اور سٹیج پر بلا کر گل پاشی کی جاتی ہے۔ جب قبیح جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود ان کی یوں حوصلہ افزائی ہو گی اور سزائیں دینے کی بجائے انہیں ہیرو سمجھا جائے گا تو لازمی بات ہے دوسرے انتہا پسند بھی پھر یہی کام کریں گے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں ان دنوں مسلمانوں کے قتل اور انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی باقاعدہ مہم جاری ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ہندو انتہا پسند لیڈروں کا زیادہ اثر و رسوخ ہے وہاں بی جے پی کی شہ پر آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، شیو سینا اور ہندو واہنی جیسی تنظیموں کے اہلکار کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کہیں گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کا قتل کر کے فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں مسلم نوجوانوں کو پاکستانی قرار دیکر ان کی داڑھیاں مونڈ دی جاتی ہیں۔ اسی طرح گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کا قتل بھی آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اگرچہ دنیا کو دکھانے کیلئے ایک مرتبہ یہ بیان دیاتھا کہ گائے بچانے کے نام پر انسان کا قتل افسوسناک ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ گائے ذبیحہ یا گوشت رکھنے کے الزام میں پیش آنے والے ستانوے فیصد واقعات بی جے پی کے اسی دور حکومت میں پیش آئے ہیں۔ ہندوستانی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ ہجومی تشدد کے نتیجہ میں گائے ذبیحہ کے نام پر قتل عام روکا جائے مگر بھارتی معاشرے میں جس طرح معصوم بچیوں کی بے حرمتی کے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اسی طرح مذہب کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک برس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میں سیکڑو ں مسلمان شہید و زخمی کئے گئے ہیں۔ اکثر واقعات ایسے ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی، محض سوشل میڈیا پر منصوبہ بندی کے تحت کوئی افواہ اڑائی گئی اور پھر مسلمانوں کو نشانہ بنا کر فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی۔ بھارت کی وہ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو آئے دن تشدد، قتل و غارت گری اور فسادات برپا کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہاتی اور ان کی املاک کو برباد کرتی آئی ہیں ان کا اب تک یہی نعرہ رہا ہے کہ ہندوستان کے ہندو خطرے میں ہیں اس لیے ہندو دھرم اور اس کے ماننے والوں پر حملوں کے مقابلہ کیلئے اس خطہ میں بسنے والے سب ہندو ایک ہوجائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے یہ سب ہندو انتہا پسند ہندووں کے تحفظ کا نعرہ ختم کرکے اب بھارت کو ایک ہندو سٹیٹ میں تبدیل کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس، شیو سینا، بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیموں کے اہلکار جہاں چاہتے ہیں بھگوا جھنڈا لگاتے ہیں اور ایک چھوٹی سی مورتی رکھ کر پوجا پاٹ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ کسی کی جرات نہیں کہ انہیں یہاں سے ہٹا سکے بلکہ پولیس بھی مکمل طور پر ان کی سرپرستی کرتی ہے اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جو آنے والے کل میں مسلمانوں کیلئے کچھ کر سکتے ہیں انہیں خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارتی تفتیشی ایجنسیاں اور اے ٹی ایس مسلم نوجوانوں کیلئے قاتل ثابت ہوئے ہیں۔ بے گناہ مسلم نوجوان سالہا سال تک بغیر کسی مقدمہ کے جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں لیکن ہندو انتہاپسندوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں بھارت کے حالات کی صحیح تصویر کشی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت پر دبا بڑھائیں کہ بے گناہ مسلمانوں اور مختلف اقلیتوں پر وحشیانہ تشدد ، قتل و غارت گری اور ان کی املاک برباد کرنے جیسے واقعات پر قابو پائے۔ بھارتی مسلمانوں کی زندگیاں اور ان کے جان و مال کے تحفظ کیلئے زوردار آواز بلند کرنا انتہائی ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button