
عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہو رہی ہے۔
عمران خان کے وکیل کا عدالت سے درخواست کی کہ ’سیشن عدالت کے فیصلے میں خرابیاں ہی کافی ہیں کہ اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ کہا ’کیا ہائیکورٹ کے اٹھائے گئے نکات کے جوابات حتمی فیصلے میں موجود ہیں؟‘
اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ’ نہیں نہیں نہیں، ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے مکمل طور پر آپ کے احکامات کو نظر انداز کیا ہے، ہم نے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست دی، عدالت نے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دے دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گواہان کی فہرست کی جانچ پڑتال کیے بغیر ہی انھوں نے فہرست مسترد کردی، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ دینے سے نہیں روکا۔ جب ہائیکورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہو تو ہمیشہ ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔‘
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ ’کس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا؟‘
اس موقعے پر ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور کا فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔
لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ’عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی، عدالت نے کہا وکیل دفاع گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس بنیاد پر ٹرائل عدالت نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا، جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں، گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے۔‘
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ’گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کے اندر کمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے جبکہ یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے۔