ColumnImtiaz Aasi

حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات ہوں گے؟

امتیاز عاصی
جمہوریت کی بساط تو پی ڈی ایم نے اسی وقت لپیٹ دی تھی جب آئین سے انحراف اور سپریم کورٹ کے احکامات سے پہلو تہی کرکے دو صوبوں میں الیکشن سے راہ فرار اختیار کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ساڑھے تین سال گزر چکے تھے پندرہ ماہ اور انتظار کر لیا جاتا تو کون سی قیامت آجاتی ۔ پی ڈی ایم نے سولہ ماہ کی حکومت میں کیا تیر مار لیا ہے الٹا غریب عوام کو مہنگائی کے چنگل میں پھنسا کر چلے گئے۔ حالات سے کچھ یوں پتہ چل رہا ہے نوا ز شریف اور بلاول بھٹو کی وزیراعظم بننے کی خواہش دل میں رہے گی۔ آئینی لحاظ سے نگران سیٹ آپ کا مقصد ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا ہوتا ہے لیکن حالات سے پتہ چلتا ہے نگران سیٹ آپ چلتا رہے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے نوے روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا ۔ جنرل ضیاء نے ایئر مارشل نور خان کو بھٹو کے پاس مری کے ریسٹ ہاوس بھیج کر اس امر کی یقین دہانی کرائی وہ نوے روز میں الیکشن کرا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے۔ وہ پی این اے کے مشوروں پر چلنے لگے اور انتخابات کے انعقاد میں گیارہ برس لگ گئے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہوئی تو صدر فاروق خان لغاری نے نوے روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ ان کی کابینہ کے ایک رکن جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں کابینہ کے ہر اجلاس میں صدر مملکت کو مقررہ وقت پر انتخابات نہ کرانے پر زور دیتے رہے فاروق خان نے آئین کے مطابق مقررہ وقت پر انتخابات کو یقینی بنایا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور دو صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عوام پر امید تھے الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے ۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج پی ڈی ایم اور خصوصا مسلم لیگ نون دیکھ چکی تھی۔ کے پی کے میں الیکشن کی امید ویسے نہیں تھی جے یو آئی کے قائد پہلے کہہ چکے تھے وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ آئی جی کے پی کے نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا صوبے میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں وہ الیکشن کے لئے نفری فراہم کریں گے جس کے اگلے روز آئی جی صاحب کو چلتا کر دیا گیا جو اس امر کا عکاس ہے پی ڈی ایم الیکشن کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کے ہاتھوں مسلم لیگ نون کی شکست کے بعد پنجاب میں الیکشن کے امکانات پہلے معدوم ہوچکے تھے کہ سانحہ نو مئی کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ تعجب ہے عمران خان کی گرفتاری پر ملکی سطح پر جس طرح کا ردعمل دیکھنے میں آیا اس کے برعکس توشہ خانہ کیس میں سزایابی کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے خاطر خواہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ درحقیقت سانحہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی رہنمائوں کی پے درپے گرفتاریوں نے تحریک انصاف کے ورکرز کے حوصلے پست کر دیئے۔ ایک اور بڑی وجہ جن پی ٹی آئی ورکرز کو جیل بھیجا گیا ہے تحریک انصاف کی طرف سے قانونی امداد کی عدم فراہمی نے ورکرز کو دل برداشتہ کر دیا۔ ایک اردو معاصر میں الیکشن کمیشن کے سیکرٹری عمر حمید خان کا شائع ہونے والے بیان میںکہا گیا ہے جب تک حلقہ بندیوں کا کام مکمل نہیں ہوتا انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے حلقہ بندیوں کا کام چار ماہ میں مکمل ہو جائے گا جس کے بعد الیکشن کمیشن انتخابات کر اسکے گا۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی انتخابات کے لئے رضامند ہیں در حقیقت دونوں جماعتیں پی ٹی آئی سے خائف بھی ہیں۔ ملک میں عجیب ماحول ہے انتخابات ہوں بھی تو ہارنے والی جماعت شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی اور انتخابات کو متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عمران خان کے دور میں ہوا۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ انتخابی اصلاحات ہو گئیں ہیں جن پر عمل درآمد کا آئندہ انتخابات کے وقت پتہ چلے گا۔ ماضی میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے تو صاف ستھری قیادت آتی تو ملک ہمارا مسائل کی دلدل سے نکل سکتا تھا۔ بدقسمتی سے قوم کے لئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات خواب بن گیا ہے۔ مردم شماری کب ہو چکی تھی حلقہ بندیوں کا کام بروقت ہو جاتا تو انتخابات میں تاخیر نہ ہوتی۔ کہنے کو الیکشن کمیشن آزاد ، غیر جانبدار اور خودمختار ادارہ ہے الیکشن کمیشن کی خود مختاری کا قوم کو سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد پتہ چل گیا ۔ الیکشن کمیشن آزاد اور خودمختار ادارہ ہوتا تو دونوں صوبوں میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد ہو جاتا ۔ حالات اور واقعات سے پتہ چلتا ہے الیکشن کمیشن کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھوں میں ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے کے بعد جن لوگوں کو ملک پر مسلط کیا گیا وہ اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے میں لگے۔ نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ اور نگران سیٹ آپ میں شامل وزراء سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے عبوری حکومت ابھی چلے گی اور عام انتخابات کا آئندہ سال انعقاد کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ نگران سیٹ میں شامل بہت سے وزراء کا ماضی بے داغ ہے ۔ جیسا کہ منصوبہ بندی کا محکمہ ایک ایسے بیوروکریٹ کو دیا گیا ہے جن کا ماضی شاندار رہا ہے۔ وہ پنجاب میں محکمہ منصوبہ بندی کے چیئرمین رہ چکے ہیں گویا ترقیاتی سکمیوں کو چلانے میں ان کی شمولیت ملک کے لئے سود مند ثابت ہوگی۔ ماسوائے ایک مشیر کے جن کے خلاف نیب میں مقدمہ زیر سماعت ہے وہ شہباز شریف کے ساتھ معاون کے طور پر کام کر رہے تھے ۔ وہ قسمت کے دھنی ہیں نگران سیٹ آپ میں انہیں دوبارہ نگران وزیراعظم کا مشیر برائے عملہ ڈویژن بنایا گیا ہے حالانکہ ان کی ملازمت کا ریکارڈ حوصلہ فزا نہ ہونے کی وجہ سے انہیں گریڈ بیس میں ترقی سے محروم رکھا گیا تھا۔ نگران وزیراعظم کی تقرری کا معاملہ دیکھ لیں میڈیا کے بڑے بڑے طرہ بازوں کو ان کے نام کی خبر نہیں ہو سکی۔ بہرکیف حالات و واقعات کی روشنی میں عام انتخابات کے انعقاد کے امکانات بہت کم ہیں۔

جواب دیں

Back to top button