
صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی ہلاکت کے کیس میں ایک مقامی عدالت نے پیر اسد شاہ کو مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔ جبکہ پولیس کے مطابق پیروں کی حویلی سے مزید تین خواتین اور چار نو عمر بچیوں کو بازیاب کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی خیرپور روحل کھوسہ نے بتایا کہ ’(ملزم) اسد شاہ کی والدہ کا بیان آیا تھا کہ ہمارے پاس اور بھی باندیاں (کنیزیں) ہیں جس کی بنیاد پر ان کا بیان لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ساتھ میں حویلی میں سرچ آپریشن کیا کہ کہیں جبری مشقت کے لیے لوگوں کو یرغمال تو نہیں بنایا گیا، یا ایسی خواتین تو نہیں جو اپنی مرضی کے بغیر یہاں ٹھہرائی گئی ہوں۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن کے بعد کرائم سین یعنی وہ کمرہ جہاں دس برس کی فاطمہ کی موت واقع ہوئی تھی کو سیل کردیا گیا ہے جبکہ وہاں سے نوعمر بچیوں سمیت سات ’کنیزیں‘ تحویل میں لی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں فاطمہ پر قبل از مرگ تشدد اور ریپ کی تصدیق کی تھی
ایس ایس پی خیرپور روحل کھوسہ کا کہنا ہے کہ بازیاب کرائی گئیں تینوں خواتین کے مطابق وہ اپنی چار نو عمر بچیوں کے ساتھ اپنی مرضی سے وہاں موجود تھیں تاہم ’ان کے اس بیان کے باوجود احتیاطاً انھیں وہاں سے نکالا گیا ہے۔‘
دوسری طرف رانی پور کے پیر اسد شاہ کی والدہ نے پہلی بار میڈیا کے سامنے آ کر اپنے بیٹے کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کم سن ملازمہ بچوں کا خیال رکھتی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ایک بھاگ جاتی تھی تو (ملزمہ) حنا شاہ کے والد دوسری کا بندوبست کرتے تھے۔ اس طرح سات ملازمائیں کام چھوڑ چکی ہیں۔‘
وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک ہی کمرے میں اسد شاہ اور فاطمہ کی موجودگی کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ چھوٹے بچوں کی وجہ سے ان ملازمہ کو کمرے میں رکھا جاتا تھا۔
انھوں نے فاطمہ پر تشدد سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’فاطمہ کی طبیعت خراب تھی۔ اس کا ڈاکٹر فتاح سے علاج کرایا جا رہا تھا۔
ان کے مطابق جب بچی کی وفات ہوئی تو ’اس کے والدین کو 50 ہزار روپے دیے کہ جا کر خیرات کریں۔‘
دوسری جانب رانی پور کی عدالت نے پیر اسد شاہ کو مزید پانچ روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
پولیس نے عدالت سے دس روز کے ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ تاہم عدالت نے صرف پانچ دن کا ہی ریمانڈ دیا۔
ملزم اسد شاہ کے وکیل نے مزید پولیس ریمانڈ کی مخالفت کی اور اپنے مؤکل کو جیل بھیجنے کی درخواست کی لیکن عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کر دی۔
فاطمہ کے والدین کی جانب سے ساھتی لائرز فورم نے پیروی کی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ایف آئی آر میں نامزد حنا شاہ کا شناختی کارڈ بلاک کیا جائے۔
وکلا نے استدعا کی کہ پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ ہائی کورٹ میں اس سے متعلق درخواست دائر کرے۔ وکلا کے مطابق حفاظتی ضمانت کے بعد ملزمہ حنا شاہ نہ تو تحقیقاتی کمیٹی سے رابطے میں آئی ہیں اور نہ ہی انھوں نے ماتحت عدالت سے رابطہ کیا ہے۔ لہٰذا انھیں شبہ ہے کہ وہ بیرون ملک فرار ہوسکتی ہیں۔
ساھتی لائرز کے وکلا نے صحافیوں کو بتایا کہ انھیں شبہ ہے کہ ملزم اسد کا تعلق ’ڈارک ویب‘ سے ہے اور وہ اس قسم کی ویڈیوز بنا کر فروخت کرتے ہیں جس کے بارے میں پولیس کو تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔