قربانیوں کے بعد پاک وطن

تحریر : مسعود ماجدسید
یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال پاکستان ہر سال 14اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ عظیم دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ یہ دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند حوصلوں اور ہمت سے بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اگر چہ اس بار ملک میں اتحادی حکومت جاچکی ہے لیکن ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پرحسب روایت اس سال بھی چراغاں کیا جائیگا۔ سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے ہم کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگاکر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ کے زرین قول ’’ ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ کی پاسداری کریں گے ۔ 14 اگست محض ایک تاریخ نہیں بلکہ 14اگست وہ امانت ہے جو ہمارے پرکھوں نے لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد ہمارے حوالے کی ہے اور ہمیں بنا کسی قربانی سے دریغ کیے اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔14اگست وہ تشخص ہے جو ہمیں ساری دنیا سے الگ ایک منفرد مقام دیتا ہے۔ 14اگست وہ سحر ہے جس کی تلاش میں کئی ستارے ڈوب گئے ۔ 14اگست وہ پیغام ہے جسے ہم تک پہچانے کے لیے نجانے کتنے قاصد راستوں کی دھول ہو گئے۔ کتنے دل ملول ہو گئے اور کتنے اشک بے مول ہو گئے۔ ہمارے لیے 14اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے ۔14اگست کا دن ہمارے سال کے تین سو پینسٹھ دنوں کا سردار دن ہے۔ یہ دن ہے تو ہماری عیدیں بھی ہیں۔ یہ دن ہے تو ہماری خوشیاں بھی ہیں۔ یہ دن ہے تو سب بہاریں بھی ہیں۔ یہ دن ہے تو سب نظارے بھی ہیں۔ ہماری زندگی، بندگی، دلکشی، تازگی، روشنی، آگہی، شاعری ، موسیقی و مصوری یہ سب کچھ ہے تو صرف اور صرف پاکستان سے ہے۔ اگر یہ دن ہمارے مقدر کی پیشانی پر کندہ ہے۔ یہ مملکت خداداد محض ایک ملک ہی نہیں ہے۔ یہ حضرتِ اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہ قائد اعظمؒ کے سارے جذبوں کی تصویر ہے۔ یہ کاتب تقدیر کی اک انمٹ سی تحریر ہے۔ ہماری سانس پاکستان ہے، ہماری آس پاکستان ہے۔ احساس پاکستان ہے۔ صد شکر ہے میرے مولا کا۔ ہمارے پاس پاکستان ہے۔ اسی انمول تحفے کے لیے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنے کو یہ دن منایا جا رہا ہے، جسے جشن آزادی یا یوم آزادی کا نام بھی دیا گیا ہے۔ آج کے دن ہمیں اپنے آبا و اجداد کی بے مثال قربانیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے اور اس بے پایاں رحمت ایزدی پر سجدہ شکر بھی ادا کرنا ہوگا ۔ ہمیں ان مائوں کے بیٹوں کو خراجِ محبت پیش کرنا ہے، جنہوں نے اس دیس کے چپے چپے، گوشے گوشے سے یہ عہد کیا تھا کہ، خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب۔۔۔ ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ بصد رنج و ملال یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وطن عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی عدم استحکام کے باوجود آئی ایم ایف کی نادہندگی سے نکلنا واقعی ایک معجزہ سے کم نہیں۔ کچھ ہماری اپنی نادانیاں ہیں اور کچھ دشمنوں کی ریشہ دوانیاں۔ ہر طرف بھوک ، افلاس کے ڈیرے ہیں۔ گھمبیر اندھیرے ہیں ۔ بڑی دور سویرے ہیں۔ صنعت و حرفت ، معیشت، تجارت ۔ ہر شعبہ خسارے میں ہے۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ سیاسی، لسانی اور مذہبی اختلافات نے شدت پسندی کو فروغ دے رکھا ہے۔ لیکن ہمیں پھر بھی کامیابی سے قوموں میں ابھرنا ہے۔ اپنی آن بان کی خاطر۔ پھر اپنی پہچان کی خاطر۔ پیارے پاکستان کی خاطر۔ مسلمانانِ ہند کو واقعی ہی ایک آزاد مملکت کی ضرورت تھی۔ جہاں وہ اسلامی قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔ اُس وقت کا یہ ایک واضح عزم اور اولین مقصد تھا کہ مسلمانوں کو بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ایک آزاد ریاست مطلوب تھی۔ یہ ہی وہ دن تھا جس نے حریت و آزادی کے اس سفر کو جو بے شمار قربانیوں اور جانفشانیوں کے ساتھ طے ہوا کو ایک بے مثال منزل کا پتا دے دیا۔ ہندوستان میں جہاں ہندو مظالم اور برطانوی
سامراج کی تاریک رات کی سیاہی پھیلی ہوئی تھی وہیں کہیں یہ دن غلامی کی تاریکی کو دور کرنے والے سورج کی نوید بھی دے رہا تھا۔ اسی دن منظور ہونے والی قرارداد کی روشنی میں مسلمانوں کے عظیم رہنما محمد علی جناحؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کی سسکتی تقدیر کو امید کی مسکان بخشی اور مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا۔ قائداعظمؒ کی پُرامن اور قانون پسندانہ سیاسی قیادت میں مسلمانوں کی الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کے نتیجے میں برطانوی سامراج اس بات پر مجبور ہو گیا کہ اب مسلمانوں کو آزادی دے ہی دی جائے۔ اور اس طرح قیامِ پاکستان کا مطالبہ جو 23مارچ 1940کو کیا گیا تھا وہ 14اگست 1947کو پورا ہوا اور یوں دنیا کے نقشے پر پاکستان جیسی عظیم اسلامی ریاست ابھر کر آئی۔ مگر افسوس آج ہمارا عالم کچھ ایسا ہے کہ ہم اپنے پُرکھوں کی مشقت سے کمائی ہوئی آزادی کو برباد کرنے پر تلے ہیں۔ اسلامیان برصغیر کی جس ڈولتی ناv کو بانی پاکستان نے کنارے لگایا تھا آج ہم اسی کشتی کو بھنور کے حوالے کر رہے ہیں۔ ہم خود ہی بگاڑ کا سبب ہیں اور اب کسی معجزے کے انتظار میں ہیں جو ہمارے حالات بہتر کر دے۔ اس ملک کو ماضی میں اتنا نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ بہتری کے بارے میں اگر سوچا جائے تو غالب کا وہ شعر یاد آجاتا ہے، کوئی امید بَر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔ مگر چونکہ ناامیدی کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اقبالؒ بھی تو اپنی کشتِ ویراں سے نا امید نہیں تھے۔ ہم بھی بہتری کی امید رکھتے ہیں مگر صرف امید سے کچھ نہ ہو گا کچھ عملی کردار بھی ادا کرنا ہو گا کیونکہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ وہ کبھی اس قوم کے حالات کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس کے لیے تگ و دو نا کرے۔ اقبالؒ کا کہنا بھی درست ہے کہ، خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ہمیں بھی پاکستان کی بہتری کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام ایمانداری کے ساتھ بہترین انداز میں کرنا ہو گا۔ اللہ رب العزت ہمارے پیارے پاکستان کو درپیش تمام مسائل سے رہائی دے اور اسے قیامت تک قائم و دائم رکھے۔ آمین!