ColumnRoshan Lal

بلاول کی معذرت خواہانہ تقریر؟

روشن لعل
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں کی گئی آخری تقریر کو ان دنوں اکثر مبصروں نے اپنے تبصروں کا موضوع بنایا ہوا ہے۔ بلاول نے قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کا آغاز جن الفاظ سے کیا ان کا لب لباب یہ ہے کہ اس کے کندھوں پر اپنے بڑوں کے سیاسی ورثے کو آگے لے کر چلنے کی ذمہ داری کی وجہ سے اس سے خاص توقعات وابستہ کی گئی ہیں۔ اس نے ہمیشہ ان توقعات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ان توقعات پر پورا اترنا ممکن نہ ہو سکا۔ اس بیان سے اپنی تقریر کا آغاز کرنے کے بعد بلاول نے اختتامی کلمات میں یہ کہا کہ میں نے اپنے ایک بیان میں صدر زرداری اور میاں نوازشریف سے یہ کہا تھا کہ انہیں ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جس سے میرے اور مریم کے لیے سیاست کرنا آسان ہو مشکل نہ رہے مگر جو فیصلے ہوئے اس سے یہ لگ رہا ہے کہ جس طرح کی سیاست گزشتہ تیس برس سے چل رہی ہے آئندہ تیس سال تک ایسے ہی چلتی رہے گی ۔ اپنی اس بات کی وضاحت بلاول نے یہ کہتے ہوئے کی کہ یہاں یا تو سیاست دان حکومت میں ہوتا یا پھر جیل جاتا ہے۔
بلاول نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ اداروں کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے مگر ہمیں گزشتہ پندرہ ، سولہ ماہ کے دوران حکومت کرنے کا جو موقع ملا ہم اس میں اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ باتیں کرتے ہوئے بلاول نے میثاق جمہوریت کا ذکر بھی کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جب تک تمام سیاسی فریق یا حریف مل کر اپنی سیاست کرنے کے رول آف گیمز طے نہیں کر لیتے اس وقت تک کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے اداروں کو اپنی حدود میں رکھنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ بلاول نے تحریک عدم اعتماد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے ہم نے دھرنا دینے جیسا غیر جمہوری عمل کرنے کی بجائے آئینی طریقہ اختیار کیا۔ پاکستان میں گزشتہ سے پیوستہ جو سیاست ہورہی ہے اس کا نقشہ کھینچنے کے بعد بلاول نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ پاکستان کے نوجوان روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ روایتی سیاست سے تنگ آنیکے باعث یہ نوجوان اب کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے ۔ بلاول نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں سیاست میں ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے جس سے نوجوانوں کی امید برقرار رہے۔
بلاول نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی ، اسے ہو بہو نقل کرنے کی بجائے یہاں اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی اس مختصر سی تقریر میں کئی غور طلب پہلو ہیں مگر ان پہلوئوں پر غور کرنے کی بجائے اکثر مبصروں نے اسے بلاول کا اقبالی بیان قرار دے کر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پی پی پی بھی ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح کی ہی سیاسی پارٹی ہے لہذا اسے کسی طرح بھی دیگر جماعتوں سے مختلف نہیں سمجھا جاسکتا۔ جو مبصر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ان کے رویوں میں اس قدر تضاد ہے کہ یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ آخر کار چاہتے کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی سربراہی میں یہاں 2008سے 2013تک جو اتحادی حکومت قائم رہی اس کے دور میں نہ یہاں کسی کو سیاسی قیدی بنایا گیا ، نہ سیاسی انتقام کے تحت کسی پر کوئی ناجائز مقدمہ قائم ہوا اور نہ ہی میڈیا کی شتر بے مہار تنقید کے جواب میں کسی میڈیا ہائوس پر پابندیاں عائد کی گئیں ۔ اس دور میں یہ ضرور ہوا کہ ہر سیاسی و غیر سیاسی فریق کا وار سہنے کے باوجود حکومت نے اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رکھنے کی کوشش کی گئی جو صرف اس وجہ سے بری طرح ناکام ہوئی کیونکہ جو میثاق جمہوریت ہو چکا تھا نہ تو اس پر دستخط کرنے والا فریق دوئم اس پر خوشدلی سے عمل کرنے پر آمادہ ہوا اور نہ ہی ان دیگر سیاسی حریفوں نے اسے معتبر سمجھا جو کسی بھی غیر جمہوری طریقے سے منتخب حکومت گرانے کا بھوت سر پر سوار کیے ہوئے تھے۔ جو جماعت اپنی حکومت کے دوران تمام تر نیک نیتی کے باوجود اداروں کو آئینی حدود میں رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی اس کے متعلق کیسے یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ ایک اتحادی حکومت میں ثانوی حلیف بن کر اداروں کو حدود کے اندر رکھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
بلاول نے اپنی تقریر میں جس تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا اس کے حوالے سے عمران خان کا وہ بیان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مان لیا کہ اداروں کا تحریک عدم اعتماد میں کوئی کردار نہیں تھا مگر وہ اسے روک تو سکتے تھے۔ عمران خان کے اس بیان سے اگر کوئی کچھ سمجھنا چاہے تو اس میں سمجھداروں کے لیے کئی اشارے موجود ہیں ۔ جس تحریک عدم اعتماد کے متعلق عمران نے مذکورہ بیان دیا، کیا اس کے متعلق یہ بات فراموش کی جا سکتی ہے کہ اسے ناکام بنانے کے لیے اداروں کی آئینی حدود کی پرواہ کیے بغیر صرف انہیں استعمال کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ ان میں پھوٹ بھی ڈالی گئی۔ اداروں میں پھوٹ کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پر عمل درآمد کے لیے 9اپریل 202کی رات کو نہ صرف اسلام آباد کی سڑکوں پر قیدیوں کی گاڑیاں دوڑتی ہوئی نظر آئیں بلکہ عدالتوں کو بھی رات 12بجی کھلنے پر مجبور کیا گیا۔ اب یہ بات راز نہیں ہے کہ جو کچھ یہاں 9مئی2023 کو نہ ہو سکا اسے 9اپریل 2022کو رات 12بجے بھی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔9اپریل 2022کی ناکامی کے بعد بھی جو کوششیں جاری رہی ان کا عکس ان عدالتوں میں نظر آیا جن کے حدود سے تجازو کرنے کا مقابلہ کسی طرح بھی اس کمزور حکومت کے بس کی بات نہیں تھی جس میں بلاول کی جماعت جونیئر پارٹنر ہے۔ کمزور حکومت کے بے بس ہونے پر پھر اداروں کے سرکردہ لوگوں نے اپنے مفادات کے تحت اپنی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس مقابلے میں کس ادارے کی جیت صاف نظر آرہی ہے۔ جیتنے اور ہارنے والے ادارے جو قبل ازیں حلیف تھے ان کے حریف بننے کے بعد دوبارہ حلیف بننے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ ان کے دوبارہ حلیف بننے کے بعد یہ بات بے معنی ہو جائے گی کہ کس کی جیت اور کس کی ہار ہوئی تھی۔ اداروں کی ہار اور جیت کے کھیل سے پہلے بھی سیاست خسارے میں تھی اور اگر سیاسی رویے جوں کے توں رہے تو سیاست کے آئندہ بھی خسارے میں رہنے کا امکان ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاول کی مذکورہ تقریر معذرت خواہانہ ہے مگر اس معذرت کو بلاول سے زیادہ مجموعی سیاسی رویوں کا عذر سمجھنا چاہیے۔ مستقبل میں اس عذر سے بچنے کی راہ نوجوان بلاول نے نئے میثاق جمہوریت کی طرف اشارہ کر کے دکھا دی ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے مبصر اس راہ پر چلنے کی ترغیب دینے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیاں بلاول کی معذرت کا ڈھنڈورا پیٹنے پر صرف کر رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button