ColumnTajamul Hussain Hashmi

ماضی کی سیاست سے نالاں

تجمل حسین ہاشمی
وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پر زور دیا کہ وہ ایسے فیصلے کریں جن سے میرے اور مریم نواز شریف کے لیے سیاست آسان ہو۔ بلاول بھٹو زرداری نے پیر کو قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی الوداعی تقریر میں کہا کہ ’’ آصف زرداری صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کو ایسے فیصلے کرنے چاہیں جن سے میرے اور مریم نواز کے لیے سیاست آسان ہو ‘‘، الوادعی تقریر میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ ایسا لگتا ہے ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے 30سالہ طویل سیاسی کیریئر میں جو بھی برداشت کیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی اگلے 30برسوں میں اسی کا سامنا کرنا پڑے‘‘۔ بلاول بھٹو زرداری نے نیا میثاق جمہوریت وضع کرنے یا مئی 2006میں لندن میں ان کی والدہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دستخط کردہ چارٹر پر عمل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ ہمیں قواعد و ضوابط طے کرنے ہوں گے اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس ضابطہ اخلاق پر عمل کرنا ہے، جس کی بنیاد نہ صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطوں تک محدود نہ ہو بلکہ اداروں تک بھی ہو‘‘۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ موجودہ اسمبلی میں یہ ہمارا آخری اجلاس ہے۔ مجھے یہاں آتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا تھا کہ جب میں نے دیکھا کہ ایک تختی لگی ہے کہ اسمبلی کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی۔ مزید کہنا تھا کہ آمرانہ ادوار میں بھی ریڈ لائنز کراس نہیں کی ۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوری اور آئینی طریقہ سے سلیکٹڈ وزیر اعظم کو گھر بھیجا‘‘، قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو کی تقریر میں نئی میثاق جمہوریت پر بات کی، اچھے اقدام کو اچھا کہا اور لکھا جاتا ہے، انصاف اور حق کی بات حال اور مستقبل میں بھی زندہ رہتی ہے، ماضی کے 30سالوں کی طرز سیاست پر بات کی۔ جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کے خلاف بھر پور مقدمات بنائے، ایک دوسرے کی حکومت کو مدت پوری کرنے نہیں دی، جلا وطن بھی رہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں نے اپنے تحفظ کے لئے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے، اس میثاق جمہوریت سے ملکی معاشی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی، نہ ہی اختلافات ختم ہوئے ۔2018تک دونوں جماعتوں میں اقتدار کی کھنچا تانی جاری رہی، مفاہمت پر دستخط کے نتائج مہنگائی کی صورت میں عوام برداشت کر رہے ہیں، تیری اور میری باری کا دور ابھی تک جاری ہے، پندرہ سال سے سندھ اور پنجاب میں دونوں جماعتوں کی حکمرانی رہی۔ قوم مفاہمت کو عوامی فلاح و بہبود سمجھتی رہی لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں، در حقیقت ہمارے ہاں ابھی مفاہمت کا مقصد مفادات کا تحفظ رہا، حکمرانی کے تاج کو اپنے سر پر ہی رکھنا ہی مفاہمت تھی، ہمارے ہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ مفاہمت کی زندہ مثال ہے، مفاہمت سے جمہوریت کو مضبوط کئے جانے کا پرچار ناکام ہوتا جا رہا ہے، جس کا اظہار وزیر خارجہ نے کل الوداعی قومی اسمبلی کے فلور پر کیا، بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستان کے نوجوان روایتی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم گرفتار ہو چکے ہیں لیکن آج نہیں تو کل وہ باہر آ جائیں گے تو کیا پھر احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہے گا ؟ میں نے گزشتہ دنوں پہلے آصف زرداری اور میاں نواز شریف سے اپیل کی تھی کہ ایسے فیصلے لیں کہ مستقبل میں میرے لیے اور مریم نواز کے لیے سیاست مشکل نہ ہو۔ محاذ آرائی کی سیاست کا خدشے کا اظہار کیا‘‘۔ سینئر صحافی رئوف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں بلاول بھٹو کے بیان پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ بلاول بھٹو کا کہنے کا مقصد تھا کہ ماضی میں جو کیا ہے اچھا نہیں کیا۔ اس بیان کی مین چیز تھی کہ ابھی بھی جو کر رہے ہیں اچھا نہیں ہے۔ سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ میں اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، ہمارے بزرگ سیاست کو نیا رخ دینے میں ناکام رہے ہیں عمران خان کی گرفتاری پر زیادہ بات نہیں کی شاید بلاول بھٹو زرداری عمران خان کی گرفتاری سے خوش نہیں ہیں‘‘۔ بلاول بھٹو زرداری کا بیان غور طلب ہے، جس صلح صفائی، مفاہمت کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، اہمیت کا حامل ہے، ماضی کی طرز سیاست میں مقدمات اور جموری حکومت کے خلاف سازشی ہاتھکنڈوں کا دور کبھی بند نہیں ہوا، سابق حکومت بھی الیکشن کے ذریعے حکومت میں آئی لیکن اس کو سلیکٹڈ کہہ کر تحریک عدم اعتماد کے ووٹ سے گھر بھیج گیا، اس طرح کی چالیں ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف کرتی رہیں۔ مقدمے بازی چلتی رہی۔ بے نظیر شہید بھی جمہوریت کی نظر ہو گئیں، بلاول بھٹو کے بیان سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹر اور سابقہ وزیر اعظم کے خلاف اس طرح کی کارروائی مزید سیاست میں مشکلات پیدا کرے گی، ماضی کے 30سال میں عوام کے حقوق کا دفاع کسی میدان میں نہیں کیا گیا، اس وقت جب اسمبلی ختم ہوگئی ہے، ایسا بیان سامنا آنا کئی باتوں کا جنم دے گیا ہے۔ لیکن بلاول بھٹو نے اپنے بڑوں سے اختلافات کو ختم کرنے اور عوامی امنگوں کی بات کرے کے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بیان کو میڈیا پر بھی سراہا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر اس کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خوشی کا لمحہ ہے کہ عوام کو اس اسمبلی سے نجات ملی ۔

جواب دیں

Back to top button