برائے فروخت

روہیل اکبر
ہم نے پاکستان کو مقروض ملک بنانے کے ساتھ برائے فروخت بھی بنا دیا ہے۔ تمام سرکاری ادارے خسارے میں ہیں، جنہیں بیچ کر ہم ان سے جان چھڑوا رہے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ ہم دنیا کا شاندار ہوٹل روز ویلٹ اس لیے بیچ رہے ہیں کہ وہ خسارے میں ہے اور دوسرے طرف گھر سے بے گھر ہوکر ٹرک ہوٹلوں میں برتن صاف کرنے والا صدر الدین ہاشوانی پرل کانٹیننٹل، میریٹ اور ہوٹل ون سمیت نہ جانے کتنے ہی کاروبار کا مالک بن بیٹھا اور ہم دنیا کی مہنگی ترین جگہ پر اپنا ہوٹل نہیں چلا سکے۔ ہماری سٹیل ملز سب سے بڑی ملز ہونے کے باوجود نہ چل سکی، کیونکہ اس کی سرپرستی سرکار کے پاس تھی اور اس کے مقابلہ میں ہاتھ سے اوزار بنانے والوں نے سب سے بڑی فائونڈری بنا لی۔ دنیا کو ہوا بازی کا درس دینے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ( پی آئی اے) سرکار کی سرپرستی میں رہتے ہوئے برائے فروخت ہوگئی اور ہمارے نظام حکومت کے سیاسی اور غیر سیاسی ٹھیکیداروں نے قرض کھا کھا کر پاکستان کو ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا۔ ابھی تو قرض ملنے پر ڈھول بجانے والے رخصت ہوئے ہیں، جب اس قرض کی واپسی ہوگی تب کیا حشر ہوگا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر غریب عوام کا خون نچوڑنے والوں نے سوائے نفرت اور پکڑ دھکڑ کی سیاست کے کچھ نہیں کیا۔ ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی آج بھی اقتدار میں ہیں، اور انہی کے وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق فرمایا ہے کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں پاکستان کے فیصلہ ساز پاکستان کے پالیسی میکرز اور حکمران طبقات قوم کو انصاف نہیں دے سکے، ہم اپنے سے سو گنا چھوٹے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں، جب پیسے مانگنے کے لئے دوسرے ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو دل کرتا ہے زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں چلے جائیں۔ بھیک مانگیں گے تو کیا گرین پاسپورٹ کی عزت ہو گی، یہ ہمارا قومی تضاد ہے، جسے دور کرنا ہے، اس کو دور کرنا پہلے سیاستدانوں کا کام ہے، پھر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے، پاکستان آج نہایت مشکل اور ہم بہت بڑے بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ میک اینڈ بریک کا دور ہے، خدا نہ کرے ہم دوبارہ ٹوٹ جائیں، ہمیں دوبارہ ٹوٹنا نہیں ہے، ہم 24کروڑ ہو گئے ہیں، چھ سال میں 4کروڑ بڑھ گئے ہیں۔ ہمارے بے پناہ مسائل ہیں، ہم تمام تر کوشش کے باوجود لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے۔ ہماری بستیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ طالبان کل آئے ہیں ان کے طرز حکمرانی سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ترقی کرنا شروع کر دی ہے۔ ایتھوپیا ایک مثال ہے، اس کا ریفرنس غربت بھوک اور قحط تھا لیکن انہوں نے 25سال میں اپنے ملک کو ٹرن آرائونڈ کر دیا، بھارت کو تو چھوڑ ہی دیں وہ تو بہت آگے نکل گیا ہے، بنگلہ دیش کہتے ہوتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے 71ء میں ہم الگ ہوئے لیکن وہ آج کہاں سے کہاں سے جا پہنچے ہیں اور ہم کہاں ہیں ہماری آپس کی لڑائی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا انتقال اقتدار کی لڑائی مارشل لاء جو بار بار کبھی اعلانیہ اور کبھی نقاب پوش آتے رہے انہوں نے ملک کا نقصان کیا مارشل لائوں کے نتیجے میں آنے والی سیاسی قیادت جسے سمجھتے ہوئے دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اس میں وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے سچ یہی ہے خواجہ صاحب کی یہ باتیں ایک تلخ حقیقت ہیں لیکن وہ بھی باتوں کے شعبدہ باز ہیں کیونکہ روز ویلیٹ ہوٹل اور پی آئی اے کی نیلامی کا سہرا انہی کے سر ہے، خواجہ صاحب کے بارے میں انکے ساتھی بہت بہتر جانتے ہیں جو ایم ایس ایف کے دور میں بھی انکے ساتھ تھے سید فقیر حسین بخاری اور چودھری اعجاز زندہ مثالیں ہیں جو ان کے ایک ایک کام سے واقف ہیں۔ آج ہر سیاسی لیڈ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے اور جس نے یہ تحفہ دیا ان کا حشر پوری کوم نے دیکھ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور ایٹم بم کے خالق محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مرتے دم تک گھر میں نظر بند رکھا، وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے تھے، مجھے تو بہت زیادہ ان کا قرب حاصل رہا، ان کی پارٹی تحریک تحفظ پاکستان کا سیکرٹری اطلاعات اور پھر جب انہوں نے پارٹی ختم کی تو اس کے بعد ان کا ترجمان رہا۔ شام ڈھلے جب ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر ڈھیروں باتیں ہوتیں تو وہ اپنے ساتھ حکومتی رویے سے بہت پریشان ہوتے تھے۔ آج ہم انہی کے بنائے ہوئے ایٹم بم پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیائے اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بھی سمجھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پاکپتن کے کسی رہائشی نے خود سے جہاز بنا کر اڑا دیا اور پھر پولیس نے اسے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا۔ بجائے اسکے کہ اسے حکومتی سرپرستی میں لیکر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی، الٹا اسے تشدد کا نشانہ بنا کر عبرت کا نشان بنا ڈالا کہ کسی اور کو اس طرح کی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو، شائد اسی لیے تو ہماری یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی بھی ایسی ایجادات سی دور رہتے ہیں تاکہ وہ بھی کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔ ہماری سیاست پر بھی غنڈوں کا راج ہے جو کل کے غنڈے، بدمعاش اور رسہ گیر ہوتے تھے وہی آج ہماری سیاست پر قابض ہیں۔ اسلحہ کے زور پر امتحانات دینے والوں کی قابلیت کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دور میں ہی ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے انہی کے دور میں ایئر پورٹ آئوٹ سورس ہوتے ہیں۔ انہی کے دور میں روز ویلیٹ ہوٹل اور پی آئی اے پر برائے فروخت کا بورڈ لگتا ہے حالانکہ پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے، جہاں ہمارے پاس چار موسم ہیں۔ سربلخ پہاڑ ہیں دنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیاں ہیں، محنت کش لوگ ہیں، لہلاتے کھیت ہیں،ریگستان، معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں، دریا ہیں، آبشاریں ہیں اور سمندر ہے لیکن اس کے باجود ہم فقیر ہیں، ہر وقت کشکول ہاتھ میں پکڑے للچائی ہوئی نظروں سے دوسروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سے خیرات مل جائے، آخر میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے گزارش ہے کہ جس طرح آپ نے پنجاب کے ہسپتالوں کا بگڑا ہوا نظام درست کیا ہے، اسی طرح واسا کو بھی نکیل ڈالیں جن کی لاپرواہیوں سے آئے روز گلیاں اور سڑکیں سیوریج کے پانی سے تباہ ہورہی ہیں اور ان پھر ان گٹروں کو کھولنے والے محنت کش جب بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے مین ہول میں اترتے ہیں تو وہ سیدھے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی دو افراد جیسے ہی گٹر کے مین ہول میں اترے تو پھر وہ زندہ واپس نہیں آئے۔ یہ لوگ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے شہر خوبصورت ہیں، انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سپیشل الائونس بھی دیا جائے، اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا رحم فرمائے۔