آخر عوام کو سستی بجلی کب ملے گی؟

قوم پچھلے 5سال سے بدترین مہنگائی کے نشتر برداشت کررہی ہے۔ عوام الناس پر انتہائی بے دردی سے گرانی کے وار کیے گئے ہیں۔ ہر شے کے دام دو سے تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ آسمان سے باتیں کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں غریب عوام کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا کسی کٹھن آزمائش سے کم نہیں۔ اس کے لیے اُنہیں کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ اس دوران بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات) کے داموں میں ہوش رُبا حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ سابق حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق بجلی کی پیداوار کے نظام کو بروئے کار نہ لانے کے سبب خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی پاکستان کے عوام استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ چین، بھارت، ایران، بنگلہ دیش وغیرہ میں بجلی انتہائی سستے نرخوں پر دستیاب ہے اور وہاں کے لوگوں پر اس کے بل گراں بھی نہیں گزرتے جب کہ وطن عزیز کے غریب شہریوں پر بجلی بل کی ادائیگی بدترین بار ثابت ہوتی ہے، اُن کی آمدن کا بڑا حصّہ ان کی نذر ہوجاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے، دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے ماہانہ بجلی کے بل بھیجنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع پر وہ توجہ نہ دی جاسکی، جس کی ضرورت تھی۔ سابق حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ اتحادی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف کسی طور معاہدے پر راضی نہ تھا۔ خدا خدا کرکے شبانہ روز کوششوں سے عالمی ادارے کی کڑی شرائط پر معاہدہ طے پایا۔ اس کے بعد ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آیا۔ بجلی کی قیمت ہوش رُبا حد تک بڑھ گئی۔ ہر شے کے دام پہلے ہی آسمان پر پہنچے ہوئے تھے، اُن کی قیمت میں مزید بڑھوتری دیکھنے میں آئی۔ ابھی اس وقت بجلی کی فی یونٹ قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ معیشت پر بھی اس کے اثرات پڑرہے ہیں۔ کاروباری لوگ اپنے کاروبار کو محدود کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ آئندہ وقتوں میں بھی بجلی کی قیمت مزید اُڑان بھرتی دِکھائی دے گی۔ صارفین سے مزید اربوں روپے اضافی رقم وصول کی جائے گی۔ اس حوالے سے ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف شرط پر حکومت نے بجلی صارفین سے اربوں روپے اضافی وصول کرنے کی منصوبہ بندی کرلی، جس کے مطابق رواں مالی سال بجلی صارفین سے 721ارب اضافی وصول کیے جائیں گے، ذرائع نے بتایا کہ ستمبر تک سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 1روپیہ 25پیسے فی یونٹ مہنگی کی جائے گی، ستمبر تک سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کرنے سے 39ارب موصول ہوں گے، ستمبر سے دسمبر تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4روپے 37پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کی جائے گی، دسمبر تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کرنے سے 122ارب روپے موصول ہوں گے، سالانہ ریبیسنگ کی مد میں 5روپے 75پیسے بجلی مہنگی کرنے سے 560ارب موصول ہوں گے، رقم توانائی شعبے کے گردشی قرضے میں کمی لانے کے لیے استعمال کی جائے گی، ذرائع وزارت خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2130 ارب تک محدود کیا جائے گا، جون2023 تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 27سو ارب روپے کے لگ بھگ ہوچکا تھا، وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کا بجلی مہنگی کرنے کا پلان آئی ایم ایف کو بھی شیئر کردیا گیا۔ یہ اطلاع غریب عوام پر برق گرنے سے کسی طور کم نہیں، قوم پر رحم کیا جائے، اُن پر اتنی شدّت سے بجلی نہ گرائی جائے کہ وہ اس کے وار سے جل کر بھسم ہوجائیں، وہ پہلے ہی اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اُن کی آمدن وہی ہے، لیکن اخراجات پانچ سال کے دوران دو سے تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی نی اُن کا بھرکس نکال ڈالا ہے۔ وہ بہت مشکل سے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرپارہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ اس کے باعث ٹرانسپورٹ کرائے ہوش رُبا حد تک بڑھ چکے ہیں۔ آٹے کی قیمت 160روپے کی حد پر پہنچ چکی ہے۔ چینی150روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ چاول کے دام بھی آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں۔ دودھ، دہی، چائے کی پتی، دالیں، سبزیاں، مسالہ جات غرض سبھی کے داموں کو پر لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے اپنے گھروں کا معاشی بوجھ ڈھونا چنداں آسان نہیں رہا ہے۔ بچوں کو پڑھانا آسان نہیں رہا۔ خدارا عوام کی حالتِ زار پر رحم کیا جائے۔ عوام دوست حکمراں اُن کے مصائب میں کمی لاتے ہیں، مشکلات میں اضافے کا سبب نہیں بنتے۔ عوام کے درد کا درماں آخر کب ہوگا۔ کب تک وہ مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے۔ کب تک اُن پر تمام تر بوجھ منتقل کرنے کی روش اختیار کی جاتی رہے گی۔ ریاست ماں ایسی ہوتی ہے۔ ریاست کو اپنے بچوں کی بہتری کا سوچنا چاہیے۔ اُن کی زندگی میں آسانی کب آئے گی، کب وہ سہل ہوں گی۔ کب اُن کو خوش حالی کا دور دیکھنا نصیب ہوگا۔ اُن کی پچھلے پانچ سال سے چیخیں ہی نکل رہی ہیں۔ خدارا اب اُن کا بھی سوچا جائے۔ اُن کے لیی بھی زندگی آسان بنائی جائے۔ دوسری جانب بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے مستقل جان چھڑانے کا بندوبست کیا جائے کہ یہ سنگین بوجھ سے کم نہیں قرار دیے جاسکتے۔ توانائی کی پیداوار کے سستے ذرائع ( ہوا، سورج، پانی) پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس حوالے سے منصوبی ترتیب دیے جائیں اور اُنہیں جتنا جلد ہوسکے، پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ آبی ذخائر جتنی زیادہ تعداد میں قائم کیے جا سکیں، وہ ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سے مستقل آبی قلت کی صورت حال سے ناصرف نجات ملے گی بلکہ ان کے ذریعے وافر بجلی کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا۔
صحافیوں، فنکاروں کیلئے ہیلتھ کارڈ کا اجرا
آج کل مہنگائی عروج پر ہے اور ایسے میں بیماریوں کا علاج کرانے کے بجائے اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ نیوز میڈیا پچھلے چند سال سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو بہت سے فنکار اور صحافی اپنے آخری ایام میں انتہائی کسمپرسی کے شکار نظر آئے۔ کئی صحافی اور فنکار شدید بیماری کے عالم میں امداد کے طالب دِکھائی دئیے۔ کچھ کی مُراد بر آئی، اکثر سسک سسک کر اس دُنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ سب سے تلخ پہلو یہ ہے کہ ایک زمانے میں جن فنکاروں کا طوطی بولتا تھا، وہ اپنے آخری دنوں میں حسرت و یاس کی تصویر بنے دِکھائی دئیے۔ کوئی ان کا سہارا نہ تھا۔ وہ بے یارومددگار رہے اور اسی عالم میں اس دُنیا کو خیرباد کہا۔ ان کی اس حالتِ زار پر افسوس کے اظہاریے بارہا دِکھائی دئیے۔ حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نظر نہیں آتے تھے۔ اب اس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے صحافیوں، میڈیا کارکنوں، فنکاروں اور ٹیکنیکل ریسورس کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا کردیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں صحافیوں، میڈیا ورکرز، فنکاروں اور ٹیکنیکل ریسورس کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ کے اجرا و فراہمی اور ’’پاکستان کوڈ، ڈیجیٹل ریپازٹری آف فیڈرل لاز’’ موبائل ایپ اور ویب سائٹ کا اجرا کردیا۔ وزیراعظم نے وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ ایپ کا اجرا کیا۔ صحافیوں، فنکاروں، میڈیا ورکرز اور ٹیکنیکل ریسورس کے لیے ہیلتھ کارڈ کا بھی اجرا کیا گیا۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ کے تحت ملک بھر میں 1200ہسپتالوں میں سالانہ 15لاکھ روپے کی کارپوریٹ ہیلتھ انشورنس سے صحافی، میڈیا ورکر، فنکار اور ٹیکنیکل ریسورس عالمی معیار کی صحت کی سہولتیں مفت حاصل کرسکیں گے۔ پاکستان کوڈ ویب سائٹ اور موبائل ایپ سے ججز، وکلا، قانونی ماہرین، قانون کے طالب علم، حکومتی اہلکار اور عوام ہر قسم کے وفاقی قوانین تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکیں گے۔ صحافیوں، میڈیا کارکنوں، فنکاروں اور ٹیکنیکل ریسورس کو ہیلتھ انشورنس کارڈ کی فراہمی یقیناً لائق تحسین اقدام ہے۔ اس پر حکومت کی جتنی توصیف کی جائے، کم ہے۔ پہلے کبھی جن پر کسی نے توجہ نہ دی، اتحادی حکومت نے اُن کی صحت کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی خاطر بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے کو آئندہ بھی جاری و ساری رکھا جائے۔ دوسری جانب پاکستان کوڈ، ڈیجیٹل ریپازٹری آف فیڈرل لاز موبائل ایپ اور ویب سائٹ کا اجرا بھی احسن اقدام قرار پاتا ہے۔ مسائل کے حل کی جانب قدم بڑھانے والے حکمرانوں کو عوام میں خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اُنہیں لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔