ColumnImtiaz Ahmad Shad

مایوسی گناہ ہے

امتیاز احمد شاد
مایوسی کا پھیلنا شیطان کی کامیابی ہے لہٰذا مایوسی پھیلانے والوں کو روکنے اور مایوس لوگوں کو گلے لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ اہل فکر،علم و دانش اور صاحب ایمان کو مکمل ادراک ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔ بعض دفعہ انسان ایسی خواہشات کا متمنی ہوتا ہے جن کا حصول محنت، لگن اور ایمانداری کے بغیر ممکن نہیں، مگر ناکامی کی صورت میں اپنی سستی اور کاہلی کو دور کرنے کے بجائے وہ مایوسی کو اپنا لیتا ہے اور نالائق مستری کی طرح خود کے بجائے اپنے اوزاروں کو لعن طعن کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں مایوس افراد کی تعداد اور مایوسی کے اسباب اس قدر وافر ہوچکے کہ پوار ملک ہی مایوسی میں ڈوب چکا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی، معاشی عدم استحکام نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز کا ہر شعبہ زندگی تنزلی، مایوسی اور بربادی کی تمام حدود پار کر چکا۔ یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ وسائل چند ہاتھوں میں چلے گئے اور مسائل کالے سیاہ بادلوں کی مانند مفلوق الحال چوبیس کروڑ بھیڑ بکریوں پر گرج چمک کے ساتھ جم کر برس رہے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی درد ناک ہے کہ ہمارے کھیتوں سے اناج کی کمی دیکھ کر بہت سارے پرندے پرواز کر گئے، شاید ان میں تلخ حقیقت کا سامنا کرنے کی اتنی ہمت نہیں جتنی پیچھے رہ جانے والوں میں ہے۔ اقوام پر جب مشکل آتی ہے تو رہنما قوم کو مشکل اور مایوسی کی دلدل سے نکالنے میں کردار ادا کرتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ وطن عزیز کے رہنما اپنی تسکین، ضد اور بدلے کی آگ میں مخالف فریق کو عبرت کا نشان بنانے اور اس کے ساتھ جڑے افراد اور نظام کو تہہ و بالاکرنے کے مشن کی تکمیل کے لئے بچے کھچے پاکستان کو بھی دائو پر لگا چکے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے بدلے کی اس آگ نے پورے ملک کو جلا کر بھسم کر دیا ہے اور افسوس آج بھی یہ سلسلہ اسی آب و تاب اور شدو مد سے جاری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے رہنما قوم کو مایوسی سے نکالنے کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ عملی اقدام بھی اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور موجودہ دور میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ لیکن ہر بار ایسے افراد ہی میدان میں ہار جاتے ہیں جو قوم کو ترقی اور خوشحالی کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسے افراد کی نیت شاید درست ہو مگر حکمت عملی کسی صور ت درست نہیں۔ ابن العربی لکھتے ہیں کہ مقصد کے حصول کے لئے مضبوط جسامت، مالی اسباب اور جنگی سازو سامان سے زیادہ دانش سے بھر پور حکمت عملی درکار ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا حکمت مومن کی میراث ہے۔ بہت سے لوگوں بشمول قومی سطح کے لیڈران کا خیال ہے کہ ملک میں جاری کرپشن، دہشت گردی اور غربت وہ بنیادی اسباب ہیں جنہوں نے قوم کو مایوسی میں ڈال دیا ہے، یہ بات کسی حد تک درست مان بھی لی جائے تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ اس کا تدارک بھی حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔ جذباتی پن اور حکمت سے عاری منصوبے انسان کو قید تنہائی یا تختہ دار تک پہنچا دیتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ترین، خوشحال ترین اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی کرپشن ہوتی ہے، جرائم ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک یا قوم ایسی نہیں جو گناہ نہیں کرتی۔ آج کی جدید ترین سہولیات کی حامل قومیں بھی اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ کیا امریکا میں دہشت گردی نہیں ہوتی؟ کیا چائنہ میں غربت نہیں ہے؟ کیا روس، جرمنی، فرانس، کینیڈا اور ایسے ہی دیگر قابل ذکر ممالک کے عوام سو فیصد اپنی حکومتوں سے خوش ہیں؟ کیا دنیا میں کسی ملک کی مثال ملتی ہے جہاں کے سو فیصد لوگ کے پاس سرکاری ملازمت ہو؟ کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں کے سو فیصد عوام خوشحال ہوں، جہاں کا ہر باشندہ صحت مند اور تعلیم یافتہ ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی قومی، ملی، قانونی، مذہبی یا اخلاقی برائی ہوتی ہے تو اس کی نشاندہی اور اصلاح کی جاتی ہے۔ کسی کی پگڑیاں نہیں اچھالی جاتیں۔ لوگ اپنے جرائم اور گناہ کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنی سزا ختم کر لینے کے بعد بھی مہذب ہی رہتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ من حیث القوم ہم لوگ اتنی افراتفری، پسماندگی، اخلاقی انحطاط، تعلیمی پسماندگی اور بیمار ذہنیت میں گرفتار ہیں؟ ہم اپنی کوتاہیوں، غلطیوں، گناہوں اور جرائم کے جواز کیوں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں؟ ہم اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کا اعتراف کیوں نہیں کر لیتے تاکہ اصلا ح ہوسکے؟ اپنی ذات میں اعلیٰ ظرفی اور اپنی سوچ میں وسعت کیوں نہیں پیدا کرتے؟ ہمیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے اصلاح اور ناکامیوں سے کامیابی کا پہلو نکالنے کا ہنر کیوں نہیں آتا ؟ اگر حکمت عملی سے منصوبہ سازی کے جائے تو یقینا ہم بھی خوشحال اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جگہ پا سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ آپ جاپان کی بات کر لیں جنگی تباہ کاریوں کے نقصانات کا جس قدر اس قوم کو سامنا پڑا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چائنہ میں بھی زلزلے اور سیلاب آتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرتے ہیں۔ روس بھی جنگ زدہ ملک ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام اقوام پھر سے نہ صرف اپنے پیروں پہ کھڑی ہوجاتی ہیں بلکہ اقوام ِ عالم میں معاشی، سیاسی اور ترقی کے میدان میں انقلابات برپا کر دیتی ہیں۔ ترقی کی وہ چابی اور چھا جانے کا وہ ہنر بحیثیت مسلمان ہم سب میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس راز کو دنیا محنت، لگن، مستقل مزاجی، ایمانداری اور کوشش ِ پیہم کے نام سے جانتی ہے۔ ہم تو ان اسلاف کے وارث ہیںکہ جنہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر نئے نئے انقلابات کے باب باندھے۔ ہم تو اس ہستی کے نام لیوا اور پیروکار ہیں کہ معراج کا عروج جن کی سنت ہے۔ کیا ان خاک نشینوں اور بوریا نشینوں نے دنیا کی امامت نہیں کی؟ ہمارے سامنے تو نمونوں کے انبار لگے پڑے ہیں۔ تین سو تیرہ ہوکر بھی کیا وہ ہزاروں پہ بھاری نہیں تھے؟ کم خوراکی، کم لباسی اور کم آرامی کے باوجود بھی کیا وہ خوشحال نہیں تھے؟ بس ہم نے صرف اس خوبی کو اپنانا ہے جو اُن میں قدرِ مشترک تھی۔ اسلامی بھائی چارہ، اخوت، محبت، ایک دوسرے کا احساس اور اپنے مرکز پہ مرکوز رہنا ہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ سخت ترین حالات میں بھی وہ مایوس نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مایوسی گناہ اور شیطان کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ کی رحمت اپنے بندوں پہ برسنے کو تیار اور بے تاب رہتی ہے۔ ہمیں بھی اٹھ کر کمر ِ ہمت باندھنی ہوگی۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے دست و بازو بننا ہوگا۔ پھر ہماری آنکھوں کے تیور کی تاب کون لاسکتا ہے؟ ہماری پیشانی کی سلوٹوں میں آج بھی انقلابات ِ زمانہ کے زار پوشیدہ ہیں۔ ہماری قوت ِ بازو کا کوئی کیا اندازہ لگا سکتا ہے؟ ہمیں بس اتنا سا ماننا ہوگا کہ رحمت ِ خداوندی اب بھی ہمارے انتظار میں ہے۔ بس کاہلی، سستی، کم ہمتی، شیطانی وسواس اور مایوسی سے نکلنا ہو گا۔ اس لیے کہ ہم جانتے ہیں کہ مایوسی گناہ اور شیطان کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔ یاد رکھیں بھکاری کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ جب تک بے ہمتے رہیں گے مایوسی ہمارے دلوں پر چھائی رہے گی اور ہم یونہی اغیار کے سامنے ہاتھ میں کاسئہ گدائی تھامے کھڑے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button