Ali HassanColumn

پیپلز پارٹی کے خلاف ایک اور کوشش

علی حسن
پیپلز پارٹی کے اقتدار کے تیسرے پانچ سالہ دور کا اختتام ہوا جاتا ہے۔ 2008ء سے 2023 ء تک پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ پر کسی روک ٹوک، رکاوٹ اور اندیشوں کے بغیر اپنی من مانی کی حکومت کی۔ مختلف موقعوں پر اس کے سیاسی مخالفین پیپلز پارٹی کو اقتدار سے فارغ کر نے کے لئے متحرک اور سر گرم رہے لیکن مخالفین کی خواہش بے تدبیر ہی رہی ۔ عمران خان حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم قائم کرنے والے اور اس کے روح رواں مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی کے سربراہ سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتے تھے لیکن وفاقی حکومت کے آخری دنوں میں بوجوہ سیاست ایک خلیج پیدا ہو گئی۔ مولانا نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالفین سے ملاقاتوں کو ایک رائونڈ مکمل کیا۔ ان کے بعد حال ہی میں سندھ میں جمعیت علما ء اسلام کے سیکریٹری جنرل راشد محمود سومرو کی میزبانی میں ایک بڑی سیاسی بیٹھک منعقد ہوئی۔ بظاہر یہ ایک دعوت تھی جس میں وہ تمام عناصر مدعو تھے جو پیپلز پارٹی مخالف قرار دئے جاتے ہیں۔ سیاسی عناصر اس دعوت کو انتخابی مہم کا آغاز قرار دیتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں عوام پر تو نہیں لیکن بااثر زمینداروں پر پیپلز پارٹی کا اثر اپنی جگہ موجود ہے۔ اکثر بڑے زمیندار پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی نظریاتی بنیاد پر نہیں بلکہ موقع پرستی، ذاتی مفاد پرستی، خوف کی وجہ سے ساتھ کھڑے رہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی تو ان پر زندگی تنگ کر دے گی۔ پارٹی کا اس حد تک دبائو ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی مخالفین کو لبھا کر پارٹی میں شامل کر نے میں کامیاب رہی ہے۔ شکار پور سے قومی اسمبلی کے رکن غوث بخش مہر، ان کے صاحبزادے سندھ اسمبلی کے رکن شہر یار مہر نے حال ہی میں شمولیت کی ہے حالانکہ دونوں باپ بیٹا 2018 میں جی ڈی اے کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔
راشد سومرو کی دعوت میں مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، قومی عوام اتحاد کی قیادت شریک ہوئی۔ قوم پرستوں جئے سندھ قومی محاذ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں بھی شریک ہوئے۔ سندھ کے روحانی درگاہوں درگاہ ہالیجوی شریف، خانقاہ امروٹ شریف، خانقاہ جرارپہوڑ شریف ، خانقاہ سومرانی شریف کے گدی نشین بھی شریک تھے۔ سابق صوبائی وزراء اعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی بھی شریک تھے۔ یہ دعوت ایسے موقع پر منعقد کی گئی جب عام انتخابات کو اعلان ہو نے ہونے کو ہے۔ اس کے انعقاد میں تاخیر ممکن بھی ہے لیکن لوگوں کو متحرک اور سرگرم رکھنا بھی ضروری ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے با اعتماد ساتھی صفدر عباسی، ان کی اہلیہ ناہید خان، ڈاکٹر ابراہیم جتوئی، ایاز لطیف پلیجو، ممتاز علی بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو، سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی، جی ڈی اے کے معظم عباسی، سردار علی گوہر خان مہر، جسقم کے ریاض خان چانڈیو جئے سندھ کے صنعان خان قریشی سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے منیر حیدر شاہ، جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی، مسلم لیگ فنکشنل کے سردار عبدالرحیم، عرفان اللہ خان مروت، مسلم لیگ کے کھیل داس اور سلمان خان، پیپلز پارٹی کے ایم پی اے علی نواز خان مہر، محمد خان جونیجو، ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو، عادل الطاف خان انڑ، ڈاڈو اللہ بخش انڑ، حسنین ذوالفقار مرزا، مولانا عبدالقیوم ہالیجوی، جے یوآئی رہنمائوں محمد اسلم غوری، مولانا سراج شاہ امروٹی، مولانا عبداللہ سومرانی، مولانا عبداللہ پہوڑ، قاری محمد عثمان، مولانا عبدالکریم عابد ، مولانا ناصر محمود سومرو، آغا ایوب شاہ، مولانا سمیع سواتی، حاجی امین اللہ شریک ہوئے۔
اس دعوت میں شریک رہنمائوں نے سندھ کی سیاسی اور سماجی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ سندھ کے مسائل کے حل کے لئے مل کر جدوجہد کریں گے۔ اس سیاسی تقریب میں راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ سندھ پر مسلط حکمران صوبے کے معدنیات اور وسائل کو فروخت کر رہے ہیں، سندھ حکومت امن وامان کی بحالی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، سندھ میں ڈاکو راج ہے حکومت کا دور دور تک نام و نشان نہیں، عوام کا درد رکھنے والی لیڈر شپ کو بیدار ہونا ہوگا، ہم سب مل کر ہی سندھ کو مسائل کے دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین مسائل کے حوالے سے بات کسی حد تک درست کہتے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد بھی عوام کو متحرک نہیں کر پاتی ہے۔ کسی اجتماعی کوشش کے بر عکس تمام رہنما اپنی اپنی انفرادی کامیابی کے لئے سر گرم ہو جاتے ہیں۔ اس تمام لوگوں کا مسئلہ ایک ہی ہے کہ سب ہی اپنے اپنے لئے اسمبلیوں میں نشست چاہتے ہیں۔ آپس میں اتحاد بنانے کے باوجود ماضی میں اپنی اپنی مہم تنہا تنہا چلاتے رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا ایک پریس کانفرس میں بیان کی ایک سطر سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے کہ ’’ ریاستی اداروں کو چاہئے کہ سیاسی لوگوں کو فیصلوں میں شامل کریں، اپنے ادارے میں بیٹھ کر فیصلے کریں گے تو نہ عوامی سپورٹ ملے گی اور نہ ہی کوئی کامیابی مل سکے گی‘‘۔ ریاستی اداروں سے مولانا کی مراد کو سیاسی مبصرین اپنے اپنے معنے پہنا رہے ہیں کہ مولانا نے مقتدر حلقوں کو متوجہ کیا ہے کہ ان کی طرف بھی توجہ دیں وہ بھی راہوں میں بیٹھیں ہیں ۔ باجوڑ میں دھماکہ نے مولانا کو سخت رد عمل دینے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 26 ایجنسیاں موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی کے باوجود دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ باجوڑ دھماکہ میں ساٹھ سے زیادہ افراد شہید ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کا ایک انتہائی کربناک پہلو یہ تھا کہ سات بہنوں کے اکلوتے کم عمر بھائی کا جنازہ بہنیں خود اپنے کندھوں پر لے کر قبرستان گئیں۔ جب مردوں نے شریک ہونے کی کوشش کی تو ان بہنوں نے انہیں جنازہ میں شامل ہونے سے روک دیا۔ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں حکومتوں کی ناکامی پریہ انتہائی رد عمل ہے جس کا اظہار عوام کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button