CM RizwanColumn

جرم، گھڑی چوری؟

سی ایم رضوان
’’ عمران خان اپنے ہی وطن کے قومی اداروں کے خلاف بیان دے کر اپنی ہی فوج کا نقصان کر رہے ہیں، اس لئے ان کے ہوتے ہوئے بھارت کو پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ بھارت کا کام عمران خان اتنے اچھے انداز میں کر رہے ہیں۔ عمران خان اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘‘۔
’’ اگر پاکستان کی آرمی مضبوط ہوگی تو پاکستان کے پاس کم سے کم ایک ادارہ ایسا ہے جو مضبوط ہوگا۔ پاکستان آرمی صرف فوج ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک گلیو ( گوند) ہے جس نے پاکستان کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہی کریڈیبل ادارہ ہے اور وہ پاکستان آرمی ہے۔ وہ فوج ہے ہی نہیں وہ گوند ہے جس نے سب کو اکٹھا رکھا ہوا ہے‘‘۔
’’ آپ ہمیں دشمن کہتے ہو تو ہم آپ کو دشمن کہتے ہیں لیکن آپ کے اندر والا بندہ بنا پیسے خرچ کئے خود اندر سے ( پاکستان کو) اتنا نقصان پہنچا رہا ہے، یہ بہت بڑی چیز ہے۔ سب پاور کے لئے کام کرتے ہیں، سب کی قیمت ہوتی ہے۔ عمران خان کی قیمت اس کی انا ہے، یہ نہیں ہے کہ وہ بھارت سے پیار کرتا ہے مگر وہ پاکستان سے بھی پیار نہیں کرتا۔ عمران خان کی انا اور گھمنڈ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور بھارت کے لئے فائدہ مند ہے‘‘۔
مندرجہ بالا بیانات بھارتی میجر ریٹائرڈ گورو آریا کے ہیں۔ جو وہ اپنے ملک کے ٹی وی چینلز پر وقتاً فوقتاً ان دنوں دیتا رہا ہے جن دنوں پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان پاک فوج کے خلاف نو مئی جیسا واقعہ برپا کرنے کے لئے زہر گھول اور پر تول رہا تھا۔ پھر دنیا بھر نے دیکھا کہ اس پاکستانی سیاستدان کی سرپرستی، شہ اور ہدایات و تعلیمات کے مطابق پاکستان کے سینکڑوں جذباتی نوجوان پاک آرمی کی تنصیبات، پاک فوج کی مختلف عمارات اور مقدس قومی تبرکات پر حملہ آور ہو گئے اور قومی و ملی عزت و غیرت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔
یاد رہے کہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے بھارتی ریٹائرڈ میجر گورو آریا اس وقت پاکستانی قوم کو متحد رکھنے کے لئے پاک فوج کی تعریف پر مجبور ہوگئے جب اس سازشی سانحہ نو مئی کو نہ صرف پاک فوج نے اپنی حکمت و شرافت کے ساتھ ناکام بنا دیا بلکہ ملکی سلامتی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچنے دیا۔ جو سازش رچائی گئی تھی جب ناکام ہوگئی۔ تب گورو آریا نے تسلیم کیا کہ پاکستان آرمی ایک طاقتور اور پروفیشنل ادارہ ہے جس نے تمام پاکستانی قوم کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔
یہ تو ہو گیا گورو آریا کا اعتراف اور پاک فوج کی مقبولیت و معقولیت کا ثبوت۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ اس مقدس ادارے کے خلاف زہر گھولنے والے ایک سیاسی مداری کا اپنا کیا کردار ہے جس کو گزشتہ روز پانچ اگست کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے فوراً بعد گرفتار کیا گیا تو نہ ہی اس گرفتاری کا طریقہ کار نو مئی جیسا تھا اور نہ اس پر نو مئی کے مظاہروں جیسا کوئی ردعمل سامنے آیا۔ اسلام آباد کی مقامی عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے چند لمحوں بعد لاہور میں پولیس کی نفری زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی جہاں انہوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
اگرچہ اس بار بھی عمران خان نے گرفتاری سے پہلے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اپنے سپورٹرز کو احتجاج کی کال دی تھی مگر دیگر پی ٹی آئی قیادت نے عوام کو پُرامن رہنے اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کی تلقین کی۔ زمان پارک میں گرفتاری سے چند گھنٹے پہلے سول کپڑوں میں ملبوس لوگ عمران خان کی رہائش گاہ آئے۔ عمران خان کے نجی سکیورٹی اہلکاروں نے ان پر اسلحہ نکالا۔ اس پر پولیس موقع پر پہنچی اور انہوں نے بھی اسلحہ نکال لیا۔ اتنی دیر میں پولیس گھر کے پچھلے دروازے سے اندر آچکی تھی جس کے بعد گرفتاری پر مزاحمت نہیں دکھائی گئی۔ بتایا گیا کہ اس وقت عمران خان نے ( پولیس سے) کہا میں نے ٹریک سوٹ پہنا ہوا ہے، کپڑے تبدیلی کے لئے کچھ منٹ دے دیں مگر حکم آیا کہ آپ کو کوئی وقت نہیں دیا جائے گا۔ پس وہ لے گئے اور ویڈیو بنانے والوں کے کیمرے ضبط کر کے انہیں بھی ساتھ لے گئے۔ اس پولیس قافلے کی منزل اٹک جیل اور یہی زندان برائے عمران خان تھا۔
قبل ازیں نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری سے یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ حکومتی کارروائیوں کے خلاف تحریک انصاف کتنی طاقت دکھا سکتی ہے اور اداروں پر کتنا دبا ڈال سکتی ہے۔ مگر اب کی بار پانچ اگست کی گرفتاری پر ایسا احتجاج دوبارہ نہیں ہو سکا کیونکہ نو مئی سے پانچ اگست تک تحریک انصاف اور پاکستان کی سیاست میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ اب تحریک انصاف دوبارہ ایسا دبا ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما یا تو گرفتار ہوگئے یا پارٹی چھوڑ چکے یا چھپ گئے ہیں۔ یہ بھی کہ یہ پارٹی جس طرح منظرِ عام سے غائب ہوئی ہے اس کی مثال بھی پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ نو مئی کو مظاہرین کا رویہ غیر سیاسی غیر جمہوری اور وطن دشمنی پر مبنی تھا۔ نو مئی کو گرفتاری کے ردعمل میں مظاہرین نے کسی مسلح جتھے جیسا رویہ دکھایا تھا۔ کیونکہ انہیں یہ تربیت ہی نہیں دی گئی تھی کہ اس رویے کے کیا نتائج ہوں گے۔ حالانکہ سیاسی جماعتیں کئی مشکل ترین مراحل پر حب الوطنی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے قوم کے دل میں گھر کرتی اور اپنی جدوجہد میں میچیور ہوتی ہیں۔ سنجیدہ قومی سیاست کا تقاضہ ہر حال میں پُرامن رہنا ہوتا ہے، پاکستان میں خاص کر اسٹیبلشمنٹ سے کبھی براہ راست لڑائی مول نہیں لی جا سکتی۔ یہاں ہر سیاستدان کا یہی کام ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے لوگوں کو پُرامن رکھتے ہوئے اقتدار تک پہنچے اور اقتدار میں آ کر ملک و قوم کے لئے انقلابی اقدامات کرے۔ مگر یہاں تو درس یہ دیا گیا تھا کہ عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ نو مئی کو ایسا ہی کیا گیا مگر اس بار مظاہرین اس لئے محتاط ہیں کیونکہ تحریک انصاف پر موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دبائو ہے جس کی ذمہ دار تحریک انصاف خود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے رہنما محتاط احتجاج کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ اب عمران خان اسٹیبشلمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کی آپشن کھو چکے ہیں۔ اب اگر پانچ اگست کا موازنہ نو مئی سے کیا جائے تو دونوں گرفتاریوں کے وقت عمران خان کے دبدبے میں فرق آیا ہے۔ اب تو وہ ملکی سیاسی قیادت کے ساتھ میز پر بیٹھنے پر بھی آمادہ تھے وہ بھی تب جب یقین ہوگیا کہ ان کی گرفتاری ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی سیاسی روّیہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس گرفتاری پر ان کا ووٹر اور سپورٹر دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کے لئے تیار نہیں۔
بات ہو رہی تھی اٹک کے زندان کی۔ ہفتے کی رات جب اسیر اٹک زندان پہنچے تو بوجہ اختتام دفتری اوقات سرکاری کارروائی بھی اٹکی ہوئی تھی۔ دوسرے روز بھی بوجہ اتوار سرکاری کارروائی اٹکی رہی۔ اٹک کے زندان کی سرکاری کارروائی سوموار کو شروع ہوئی تو جیل ضوابط کے مطابق پہلے دیگر حوالاتیوں کو جیلر کے روبرو پیش کیا گیا۔ پھر قیدیوں یعنی اسیروں کی باری آئی۔ اسیر مذکور ایک بڑا اسیر تھا، جیلر کے روبرو اس طرح پیش نہ کیا گیا جس طرح عام اسیر پیش کئے جاتے ہیں۔ عام اسیروں کو تو جیلر بہادر کے روبرو آنکھ اٹھانے پر پشت پر ایسا تھپڑ پڑتا ہے کہ اسیر منہ کے بل جیلر بہادر کے قدموں میں جا گرتا ہے۔ اسیر مذکور کو ایسے تو پیش نہیں کرنا تھا۔ قدرے نرمی سے جیلر کے روبرو پیش کیا گیا بٹھایا تو نہ گیا کھڑا کیا گیا کیونکہ کارروائی چونکہ سرکاری اور روایتی تھی لہٰذا سوال بھی روایتی اور اسی انداز میں کئے گئے جس طرح کہ عام اسیروں سے کئے جاتے ہیں۔ پہلا سوال پنجابی زبان میں تھا اردو میں جس کا ترجمہ بنتا ہے نام بتائو۔ ایستادہ کھڑے اسیر نے سپاٹ مگر قدرے مودبانہ لہجے میں جواب دیا ’’ عمران‘‘ خان اور نیازی کے لاحقے لگانے کی کوشش شاید دانستہ نہ کی گئی تھی۔ دوسرا سوال بھی پنجابی زبان میں تھا۔ کس کے ( بیٹے) ہو۔ جواب تھا ’’ اکرام اللہ‘‘ یہاں بھی خان اور نیازی کے لاحقے لگانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ پھر سوال تھا کس جرم میں سزا یافتہ ہو۔ جواب آیا ’’ گھڑی چوری‘‘ میں۔ پھر ٹکٹ نمبر یعنی قیدی نمبر الاٹ کیا گیا۔ اسیری کے دوران زیب تن کرنے کے لئے اسیری کی دو صاف ستھری وردیاں اور سفید رنگ کی کھدر کی دو ٹوپیاں، سر پہ رکھنے کے لئے دی گئیں۔ یوں اٹک کے زندان کی یہ پہلی سرکاری رسم بغیر اٹکے ادا ہوئی۔ مگر چوری کا وہی الزام جو اپنے سینکڑوں معلوم اور نامعلوم مخالفین پر بغیر سوچے سمجھے لگا دیا جاتا تھا۔ اب نہایت سوچ سمجھ کے تحمل کے ساتھ خود پر تسلیم کیا تو زندان میں ایک عدد تنگ کوٹھڑی بخیر و عافیت الاٹ ہو گئی۔ زندگی، زبان، سوچ اور کردار کیا کیا کچھ دکھاتے ہیں انسان کو زندگی میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button