Editorial

ٹرین کا المناک حادثہ، 37مسافر جاں بحق

ایسا لگتا ہے کہ سانحات قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ یا واقعہ پیش آجاتا ہے، جس پر پوری قوم سوگوار ہوجاتی ہے۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ وطن عزیز میں ہر سال حادثات ہزاروں زندگیوں کے ضیاع کی وجہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں فضائی، ٹرین اور ٹریفک حادثات کے حوالے سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسے ایسے سانحات کا قوم نے سامنا کیا ہے، جنہیں آج تک فراموش نہیں کیا جاسکا ہے۔ پچھلے پانچ برس میں کئی ٹرین حادثات ہوئے، جن میں سیکڑوں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئی۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی ایک الم ناک حادثہ سندھ کے شہر نواب شاہ میں پیش آیا ہے، جس میں 37مسافر جاں بحق جب کہ 70سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ کراچی سے حویلیاں ( راولپنڈی) جانے والی ہزارہ ایکسپریس کو نواب شاہ میں سرہاری ریلوے اسٹیشن کے قریب خوف ناک حادثہ پیش آیا، ٹرین کی 8بوگیاں پٹری سے اتر کر الٹ گئیں، جس سے 37مسافر جاں بحق اور 70سے زائد زخمی ہوگئے۔ اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں جب کہ ریلوے حکام اور قریبی علاقوں کے مقامی لوگ بھی امدادی کارروائیوں میں شامل ہوگئے۔ ویران علاقے میں حادثہ پیش آنے کے باعث امدادی کاموں میں دشواری کا سامنا رہا۔ نواب شاہ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، حادثے کے بعد کراچی سے اندرون ملک جانے اور آنے والے دونوں ٹریک بند کردیے گئے جب کہ کوٹری سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ پر روانہ کردی گئی۔ آرمی چیف کی طرف سے خصوصی ہدایت کے بعد پاک فوج اور رینجرز نے بھی جائے حادثہ پر پہنچ کر امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں، آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو کے لیے جائے حادثہ پر موجود ہیں، اس اقدام کا مقصد ریسکیو ہیلی کاپٹرز سے جلد از جلد زخمیوں کی قیمتی جانوں کو بچانا ہے۔ پاک فوج اور رینجرز کے حکام جائے حادثہ پر اشیائِ خورونوش بھی لے کر پہنچ گئے، پاک فوج کے ریسکیو آپریشن کا سلسلہ آخری زخمی کی اسپتال منتقلی اور جائے حادثہ پر پھنسے افراد کی بحالی تک جاری رہے گا۔ سماجی ادارے ایدھی فائونڈیشن نے بتایا ہے کہ 3افراد کی لاشوں اور 60زخمیوں کو جائے حادثہ سے پی ایم سی اسپتال نواب شاہ منتقل کیا گیا ہے۔ ادھر ٹرین ڈرائیور راشد منہاس نے کہا کہ حادثہ میں ٹرین کا انجن اور عملہ محفوظ رہا، پچھلی بوگیاں ڈی ریل ہوکر اتریں۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کے مقام پر ٹریک بالکل ٹھیک تھا، ٹرین 50کلومیٹر کی رفتار پر تھی جب کہ حادثے کے مقام پر رفتار کی حد 105کلومیٹر فی گھنٹہ تک مقرر ہے۔ راشد منہاس کا کہنا تھا کہ جس طرح انجن اور ٹرین کو دھچکا لگا، اس سے تخریب کاری کا شبہ ہوتا ہے۔ ادھر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ٹرین کی بوگیاں زوردار دھماکے سے پٹری سے اتریں۔ یہ بھی بتایا جارہا ہی کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ریلوے ٹریک کئی جگہوں پر کمزور ہونے کی اطلاعات تھیں اور ریلوے ٹیمیں روزانہ بنیاد پر ریلوے ٹریک کی جانچ پڑتال اور مرمت میں پہلے سے مصروف تھیں۔ اس واقعے پر ہر دردمند دل اُداس اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ہر سُو غم و اندوہ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس واقعے سے 37گھرانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ لوگ اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ یہ حادثہ اُن کے لواحقین کے دلوں میں پھانس کی طرح ہمیشہ چُبھتا رہے گا۔ ہمارے ملک میں اتنے زیادہ حادثات ہوتے ہیں کہ دُنیا کے کسی خطے میں ایسے حادثات کی نظیر ڈھونڈے سے بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ اس تناظر میں ٹرین حادثات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ حادثات کی وجوہ بننے والے اسباب کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسری جانب اس حادثے پر تخریب کاری کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں ہنگامی نیوز کانفرنس کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد کمشنر اور ڈی آئی جی موقع پر پہنچ گئے۔ خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ ہزارہ ایکسپریس کو پیش آنے والا حادثہ کوئی تخریب کاری بھی ہوسکتی ہے۔ سعد رفیق کا کہنا تھا ٹرین کی رفتار مناسب تھی اور ٹرین جب حادثے کا شکار ہوئی تو 45کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی، لیکن پہلے ریلیف اور پھر تحقیقات ہو گی۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ تخریب کاری بھی ہوسکتی ہے اور لائن میں مکینیکل فالٹ بھی ہوسکتا ہے، تخریب کاری تھی یا فنی خرابی اس کا فیصلہ ایف جی آئی آر کرے گی۔ سعد رفیق کی جانب سے ٹرین حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے جب کہ خواجہ سعد رفیق نے حادثے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے نواب شاہ میں فی الفور ہنگامی اقدامات کرنے کی درخواست کی۔ سید مراد علی شاہ نے وزیر ریلوے کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے بتایا کہ سکھر اور نواب شاہ کے اسپتالوں میں ہنگامی صورت حال کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ زخمیوں کو اسپتالوں میں پہنچانے اور بہترین طبی امداد کی فراہمی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرانا ناگزیر ہے۔ اگر یہ واقعی کسی تخریب کاری کا شاخسانہ ہے تو اس کے ذمے داروں کو کسی طور بخشا نہیں جانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ تحقیقات میں اس واقعے کے ذمے داران کا تعین کیا جائے۔ دوسری جانب اس حادثے کے زخمیوں کو بہتر سے بہتر علاج کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے۔ زخمی اور جاں بحق افراد کے لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ سب سے بڑھ کر ٹرین حادثات پر قابو پانے کے لیے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ پورے ملک میں ریلوے نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے۔ پرانے اور بوسیدہ ٹریکس کی حالتِ زار بہتر بنائی جائے۔ ریلوے اسٹیشنوں کو جدید بنایا جائے۔ جدید ٹرینیں ریلوے نظام میں شامل کی جائیں۔ ریلوے نظام کو حادثات سے مکمل پاک بنایا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
ورلڈ کپ: پاکستان ٹیم بھارت بھیجنے کا فیصلہ
پاکستان نے ہمیشہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھا، اس لیے بھارت سے مقابلوں کے حوالے سے اُس کی جانب سے کبھی بھی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ایشیا کپ کا انعقاد ہونے جارہا ہے، جس میں میزبانی کے فرائض پاکستان کو اپنی سرزمین پر سرانجام دینے تھے، لیکن بھارتی ہٹ دھرمی، ضد، انا پرستی نے کرکٹ کے میدانوں کو بھی سیاست زدہ کر دیا اور کھیل کے بے شمار شائقین کو اس صورت حال پر مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بھارت نے ایشیا کپ کے لیے اپنی ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اے سی سی سے نیوٹرل مقام پر بھارت کے میچز منعقد کروانے کے لیے دبائو ڈالا اور اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ رواں سال ہی کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی منعقد ہونے جارہا ہے، جس کی میزبانی بھارت کے ذمے ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے اپنی کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی کرکٹ ٹیم کو آئندہ آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں شرکت کے لیے بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کھیلوں کو سیاست کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے اور بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بین الاقوامی کھیلوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کا فیصلہ اس کے تعمیری اور ذمے دارانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے جب کہ بھارت کا رویہ ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے، بھارت نے ایشیا کپ کے لیے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کو اپنی کرکٹ ٹیم کی سلامتی سے متعلق گہری تشویش ہے، ہم ان خدشات کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور بھارتی حکام تک پہنچا رہے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان ٹیم کی مکمل حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان کا قومی ٹیم کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ صائب معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پاکستان کی کھیل اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی سوچ عیاں ہوتی ہے۔ حکومت نے قومی ٹیم کو ورلڈ کپ کے لیے بھارت بھیجنے کا فیصلہ کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت کو بھی اپنی کھیل اور سیاست کو گڈمڈ کرنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے ڈیڑھ ارب شائقین دونوں ٹیموں کے مقابلوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ ان مقابلوں کو دُنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ جب سے مودی برسراقتدار آئے ہیں، بھارت پاکستان سے باہمی سیریز کھیلنے سے عرصہ دراز سے گریزاں ہے۔ اس سے ڈیڑھ ارب شائقین میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے باہمی ٹی ٹونٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز کے مقابلوں کے انعقاد کے بے صبری سے منتظر ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے رواں سال بھارت جائے گی۔ اس کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے بھارتی حکومت کو موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button