آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پر اعتراضات

محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان میں وکلاء برادری کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے پارلیمنٹ کی جانب آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے مجوزہ ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل واپس لے، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے خلاف کسی بھی اقدام کی بھرپور مخالفت کریں گے۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس بل سے خفیہ اداروں کو کسی بھی شہری کو حراست میں لینے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، ترمیم سے خفیہ اداروں کو سرچ وارنٹ کے بغیر کسی بھی شہری یا جگہ کی تلاشی کی چھوٹ دی گئی ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم نا صرف غیر اخلاقی بلکہ انصاف کے اقدار کے بھی خلاف ہے۔ اس حوالے سے پاکستان بار کونسل کا مزید کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے، توقع ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی مجوزہ ترمیم کو مسترد کر دے گی۔ یاد رہے گزشتہ دنوں سینیٹ نے ایک صدی پرانے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے بل پر شدید مخالفت کے بعد سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا جس کی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادیوں نے بھی شدید مخالفت کی۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر قانون سازی اس طرح کرنی ہے تو ایوان سے واک آئوٹ کروں گا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کڑی تنقید کرتے ہوئے احتجاجاً ایجنڈے اور بلز کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے مجھے سینیٹ نہیں راجواڑے میں بھیجا گیا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ان کے ہاتھ بندھے ہیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے۔ اس موقع پر ایوان میں شدید نعرے بازی ہوئی۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کے علاوہ مسلم لیگ ن نے کھل کر مخالفت و مزاحمت کی۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیر قانون کو اس وقت زیادہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب انکی اپنی جماعت کے مرحوم سینیٹر مشاہد اللہ خان کے فرزند سینیٹر افنان اللہ نے بھی مجوزہ بل کی بھرپور مخالفت کی۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں ایوان کے اکثریتی ممبران کی جانب سے بل کی بھرپور مخالفت کو دیکھتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے آفیشل سیکرٹ ( ترمیمی) بل 2023پر مزید نظر ثانی کے لئے مجوزہ بل کو قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ اور پاکستانی وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کی جانب سے اس مجوزہ ترمیمی بل پر اعتراضات کیوں کئے جارہے ہیں۔ ترمیمی بل پر سب سے زیادہ اعتراضات سیکشن 11کے سب سیکشن 2۔Aپر کئے جارہے ہیں۔ جس کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو وسیع اختیارات دئیے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی وقت، کسی بھی شخص یا جگہ پر بغیر وارنٹ داخل ہونے اور تلاشی لینے کی اجازت ہوگی اور اگر ضرورت ہو تو طاقت کا استعمال بھی کر سکیں گے اور اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی دستاویز، خاکہ یا ایسی کوئی بھی چیز ضبط کر سکیں گے جس کے ذریعے کسی جرم کا ارتکاب کرنے یا کیے جانے کا شبہ ہو یا پھر اگر وہ اس جرم کا ثبوت ہو۔ مجوزہ ترمیمی بل پر دوسرا بڑا اعتراض سیکشن 2کی سب کلاز 8۔Aیعنی دشمن کی تعریف پر کیا جارہا ہے۔ مجوزہ بل میں دشمن کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو براہ راست یا بالواسطہ، جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کسی غیر ملکی طاقت، غیر ملکی ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر، تنظیم، ادارے، انجمن کے ساتھ کام کر رہا ہو وہ پاکستان کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانے کے جرم میں مجرم تصور کیا جائے گا۔ ماہرین اس سیکشن کو انصاف کے اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ قانون کسی بھی قسم کے غیر ارادی رابطے کو منصوبہ بندی کے تحت کی گئی جاسوسی کے برابر سمجھتا ہے۔ اسی طرح سیکشن 6میں ترمیم کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان یا مخبروں یا ذرائع کی شناخت کو ظاہر کرنے پر تین سال قید کی سزا کے ساتھ شہری پر جرمانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ مجوزہ ترمیمی بل پر اعتراضات کرنے والوں کے نزدیک اس بل کی بعض شقیں آئین پاکستان اور نافذ العمل فوجداری قوانین سے متصادم ہیں۔ جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 8میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو آئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی حقوق کو چھین لے اور ان حقوق میں کمی لائے۔ آئین کے آرٹیکل 9کے تحت قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ آرٹیکل 10کی تحت کسی بھی شخص کو جس کو گرفتار کیا گیا ہو، اس طرح کی گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں بتائے بغیر حراست میں نہیں رکھا جائے گا، اور نہ ہی اسے اپنی پسند کے کسی قانونی ماہر سے مشورہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے حق سے انکار کیا جائے گا۔ اور گرفتار فرد کو 24گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہے۔ اور آرٹیکل 10۔Aکے تحت اپنے شہری حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین کے لیے یا اس کے خلاف کسی مجرمانہ الزام میں کوئی شخص منصفانہ مقدمے اور مناسب کارروائی کا حقدار ہوگا۔ آرٹیکل 14(1)کے تحت انسان کا وقار اور، قانون کے تابع، گھر کی راز داری، ناقابل تسخیر ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم اور حساس ترین قانون سازی کے لئے پارلیمینٹ کو ریاست کے تمام متعلقین جیسا کہ تمام سیاسی جماعتوں، مسلح افواج، عدلیہ اور وکلاء برادری کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ ریاست کے اہم متعلقین کے درمیان کشیدگی کی بجائے افہام و تفہیم سے معاملات حل کئے جاسکیں۔