ColumnRoshan Lal

کون بنے گا نگران وزیراعظم؟

تحریر : روشن لعل
پاکستان میں ان دنوں جو موضوعات زیر بحث ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارا آئندہ نگران وزیر اعظم کون ہوگا۔ اس موضوع پر بحث کے وسعت اختیار کرنے سے پہلے ہی ملک میں سب سے بڑا میڈیا ہائوس ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے ٹی وی چینل نے یہ خبر نشر کردی کہ نگران وزیر اعظم کے لیے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادت اسحاق ڈار کے نام پر متفق ہو گئی ہے۔ اس میڈیا ہائوس کو اگر کہیں سے اس افواہ کی بھنک پڑ بھی گئی تھی تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسے خبر بنانے سے پہلے کم از کم پیپلز پارٹی سے تصدیق ضرور کر لی جاتی ۔ مگر اس میڈیا ہائوس نے پیپلز پارٹی کے ترجمان سے اس وقت رابطہ کیا جب ان کی نشر کردہ غیر مصدقہ خبر کی بازگشت دیگر تمام ملکی چینلز پر سنائی دینا شروع ہوگئی۔ اس حوالے سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خبر نشر کرنے کے بعد بھی چینل نے خود پی پی پی سے رابطہ نہیں کیا بلکہ جب پارٹی کے ترجمان نے خبر کا ذریعہ دریافت کرنے کے لیے چینل سے پوچھا تو پھر اسے کہا گیا کہ وہ اپنا موقف بیان کر دے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے کہ کس نے پہلے رابطہ کیا مگر سب سے بڑا میڈیا ہائوس رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کے متعلق یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ ایک ایسی افواہ جسے خبر بنانے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا ممکن تھا اسے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بریکنگ نیوز بنا دیا گیا۔ آئین کے جس آرٹیکل 224 کی شقوں میں نگران وزیر اعظم کی تقرری کا ذکر ہے ان میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ نگران وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین اور قریبی رشتہ دار، نگران دور حکومت میں منعقدہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اب کسے یہ علم نہیں ہے کہ اسحاق ڈار کی شریف خاندان کے ساتھ کیا قریبی رشتہ داری ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے بڑے میڈیا ہائوس کے دعویدار مذکورہ خبر نشر کرنے سے پہلے کسی آئینی ماہر سے یہ رائے لیتے کہ آئین میں نگران حکومت کے عہدیداروں کے رشتہ داروں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی کا اطلاق کیا صرف ان کے بچوں اور شریک حیات کی حد تک ہے یا تمام قریبی رشتہ دار بھی اس میں شامل ہیں۔ اس طرح کی احتیاط کیے بغیر اسحاق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنانے کی خبر نشر کیے جانے کو بعض لوگ سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا گیا عمل قرار دیتے ہیں۔ اسحاق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنانے کی خبر کسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت نشر ہوئی یا نہیں ہوئی مگر یہ بات اب تقریباً طے سمجھی جارہی ہے کہ نگران وزارت عظمیٰ کا قرعہ اب موجود وزیر خزانہ کے نام نہیں نکل سکے گا۔
اسحاق ڈار کا نام نگران وزیر اعظم کے لیے زیر تعمیر فہرست میں شامل کیے جانے کا امکان ختم ہونے کے باوجود یہ بات طے ہے کہ اس اہم عہدے کے لیے جو بھی نام فائنل ہوا وہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کی رائے اور مشورے سے ہی ہوگا۔ عجیب بات ہے کہ آئینی طور پر نگران وزیر اعظم کے لیے باہمی مشاورت کا حق صرف وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو حاصل ہے مگر اس حوالے سے ان دونوں کی بجائے میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کا نام زیادہ لیا جارہا ہے۔ اس بات کو حسن اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ 2013 میں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا حق بھی راجہ ریاض اور شہباز شریف کے پاس تھا مگر کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کا یہ حق میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری نے استعمال کرتے ہوئے نجم سیٹھی کو صوبے کا نگران وزیر اعلیٰ بنایا ۔ پاکستان میں مسلم لیگ ن میں سے شین لیگ اور میم لیگ نکلنے کی باتیں چاہے کوئی جتنے بھی زور شور سے کرتا رہا ہو مگر آج تک میاں شہباز شریف نے یہی ظاہر کیا ہے کہ وہ اب بھی میاں نواز شریف کے اسی طرح تابعدار ہیں جس طرح ماضی میں تھے۔ راجہ ریاض نے پنجاب کا قائد حزب اختلاف ہونے کی حیثیت سے 2013میں آصف علی زرداری کی ایما پر نجم سیٹھی کے نام پر اس لیے اتفاق کیا کیونکہ ان کا ملک کے سب سے بڑے صوبے کا اپوزیشن لیڈر بننا زرداری صاحب کی نظر عنایت کا مرہون منت تھا۔ موجودہ قومی اسمبلی میں راجہ ریاض کے اپوزیشن لیڈر بننے میں بھی زرداری صاحب کی نظر عنایت نے کوئی نہ کوئی کردار تو ضرور ادا کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ راجہ صاحب اب بھی ماضی کی طرح ہی ان کے اطاعت گزار ثابت ہونگے۔
راجہ ریاض، ماضی کی طرح آصف علی زرداری کے اطاعت گزار ثابت ہوں یا نہ ہوں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران حکومت کی رخصتی سمیت موجودہ حکومت اور اپوزیشن کا جو سیٹ اپ قائم ہوا وہ زرداری صاحب کی معاملہ فہمی اور رہنمائی کے بغیر نہیں بن سکتا تھا۔ آصف علی زرداری کے اس کردار کی وجہ سے اگر نگران سیٹ اپ کے لیے ان کی رائے کو اہم اور معتبر سمجھا جارہا ہے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ آصف علی زرداری بہت پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے خیال میں کسی سیاستدان کو نگران وزیر اعظم بنایا جانا زیادہ مناسب ہے۔ اس بیان سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کسی ٹیکنو کریٹ کو نگران وزیر اعظم بنانا زرداری صاحب کی ترجیح ہر گز نہیں ہے۔ اسحاق ڈار سیاستدان ہی ہیں مگر انہیں نگران وزیرا عظم بنانے کی تجویز پر پیپلز پارٹی کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ پی پی پی ا ڈار صاحب جیسے کسی سیاستدان کو بھی نگران وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتی۔ پیپلز پارٹی اگر ایسا نہیں چاہتی تو اس کی وجہ اس کے وہ ناخوشگوار نتائج ہیں جو اسے مسلم لیگ ن کی قیادت کی تجویز پر نجم سیٹھی کو وزیر اعلیٰ پنجاب اور جسٹس ( ر ) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنانے جیسے کام کر کے بھگتنا پڑے۔ یہ بات درست ہے کہ آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے اگر الیکشن کمیشن فعال کردار ادا کرے تو انتخابات میں دھاندلی کرنا کسی نگران حکومت کے بس کی بات نہیں رہتی ۔ مگر یہ آدھا سچ ہے ، پورا سچ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے فعال کردار کی وجہ سے نگران حکمرانوں کے لیے الیکشن میں دھاندلی کرنا تو ممکن نہیں ہوتا مگر پھر بھی وہ اتنے بااختیار ضرور ہوتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے کوئی انتخاب ، آر او الیکشن بنایا جارہا ہو یا پھر آر ٹی ایس سسٹم بٹھانے کی کوشش کی جائے تو وہ فوراً اسے روکنے کے احکامات جاری کریں۔
آنے والے چند دنوں میں کون بنے گا نگران وزیر اعظم جیسے سوال کا جواب سامنے آجائے گا۔ ہو سکتا ہے آج کل متعلقہ سیاسی جماعتیں نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے ایسے ناموں پر غور کر رہی ہوں جو آئندہ انتخابات میں ان کے لیے موافق ثابت ہو سکے مگر ایسے غور و فکر کی بجائے مناسب بات یہ ہے کہ سب کی ترجیح کوئی ایسا نام بنے جس کی موجود گی میں کسی کے لیے الیکشن چوری کرنا ممکن نہ ہو سکے۔

جواب دیں

Back to top button