Column

طویل مدتی نگران حکومت کے قیام کی تیاریاں

یاور عباس

ملکی تاریخ میں پہلی بار طویل مدتی نگران حکومت کا تجربہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر طویل مدتی حکومت کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے اور سیاستدان خود اپنے پائوں پر کلہاڑی کیوں چلانے کے لیے راضی ہورہے ہیں ۔ ماضی میں پاکستان آمرانہ اور جمہوری دور حکومتوں میں بے شمار تجربات کر چکا مگر ملکی مسائل بڑھتے گئے قوم پر قرضوں کے پہاڑ کھڑے کر دئیے گئے جبکہ قوم کو مہنگائی کی قبر میں زندہ گاڑ ا جارہا ہے۔ 90کی دہائی تک اسمبلیوں کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی پھر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اپنی زیر نگرانی نیم جمہوری حکومتیں قائم کرنا شروع کردی گئیں مشرف دور کے خاتمہ کے بعد تیسری اسمبلی اپنی مدت پوری کر رہی ہے مگر کسی بھی پارٹی کے وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ یوں نگران وزراء اعظم کے علاوہ تین ادوار میں 6وزیراعظم بن چکے ہیں ۔ ملک میں کمزور جمہوری عمل کے ذمہ دار سیاستدان بھی ہیں جو بذات خود فوج کو دعوت دیتے ہیں اقتدار میں آنے کی یا پھر ان کی کٹھ پتلیوں کی طرح کام کرتے ہیں ہر فوجی آمر کے دور میں سیاستدان ہی ان کے دست و بازو بنے اور اپنے مخالفین کو کونے لگاتے رہے ، انہی تجربات میں ہم نے ملک دولخت کر لیا مگر ابھی تک تاریخ سے کچھ سیکھے نہیں ، پی ٹی آئی دور حکومت کی معاشی گراف بتا رہے تھے کہ ڈیفالٹ کے خطرات نہیں مگر پی ڈی ایم نے ملک سے مہنگائی کے خاتمہ اور عوام کو ریلیف دینے ، پٹرول 70روپی کم کرنے ، ڈالر100روپے پر لانے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے کر کے تحریک عدم کے ذریعے حکومت میں آکر ملکی خزانہ کا وہ بھرکس نکالا کہ اب وزیر اعظم شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ ملک ڈیفالٹ ہونے والا تھا اگر ہمیں آئی ایم ایف سے ریلیف نہ ملتا تو میرے ماتھے پر کالا دھبہ لگ جاتا اور میری قبر پر کتبہ لگ جاتا انہوںنے تو شکر ادا کر لیا کہ میرے دور میں ڈیفالٹ نہیں ہوا مگر قرضے لے کر عارضی ریلیف کب تک لیا جاسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب کوئی تو عوام کو بتادے ؟ ملک واقعی وقتی طور پر ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے مگر غریب عوام ڈیفالٹ کرگئے ہیںپہلے غریب لوگوں کو صرف کھانے پینے کی فکر ہوتی تھی مگر اب تو بجلی و گیس کے بل کی وجہ سے جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں اور لوگ میٹر اتروانے یا پھر خود کشیوں پر مجبور ہورہے ہیں ۔
پی ڈی ایم حکومت کو جس طرح اقتدار میں آتے ہی عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اگر وہ اپنے اقتدار کو طول نہ دیتے اور عوامی مینڈیٹ لینے کے لیے عوامی عدالت میں جاتے تو شاید آج یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا مگر اپنے کیسز سے نجات کے لیے انہیں اقتدار کو طول دینا پڑا اور اپوزیشن پر ریاستی تشدد کی بدترین مثال قائم کی۔ سیاسی اور جمہوری سوچ کے حامل سیاستدانوں کو کبھی عوام کے پاس جانے سے خوف نہیں آتا مگر ملکی حالات ایسے گھمبیر کر دئیے گئے کہ پنجاب اور کے پی کے میں آئینی الیکشن مقررہ مدت میں کروانے کی بجائے عدلیہ سے بھی ٹکر لے لی مگر الیکشن سے راہ فرار حاصل کر لی گئی اور یوں ملکی تاریخ میں پہلی بار نگران حکومت نہ صرف طویل ہوگئی بلکہ بااختیار بھی ہوچکی ہے ۔ پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومتیں وہ تمام اقدامات کر رہی ہیں جو کہ منتخب حکومتیں کرتی ہیں اگست کے دوسرے ہفتہ میں وفاق میں بھی حکومت کی مدت پوری ہوجائے گی ، آئینی طور پر 60دن میں الیکشن ہونے چاہیے مگر گزشتہ ایک سال سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ یہ حکومت الیکشن نہیں کروائے گی مگر گزشتہ ماہ سے حکومتی وزراء نے الیکشن کروانے کا عندیہ دینے شروع کر دیا ، غیر رسمی طور پر ملاقاتوں میں نگران سیٹ اپ کی تیاریوں کی خبریں بھی منظر عام پر آرہی اور نگران وزرائی اعظم کے ناموں پر بھی تبصرے ہورہے ہیں مگر اس کے باوجود انتخابات ہوںگے یا پھر نہیں یہ خدشات ابھی سبھی کے دل میں تھے کہ حکومت نے اچانک پارلیمنٹ میں نگران حکومت کو بااختیار بنانے کا بل پیش کر دیا جس پر حکومتی اتحادی جماعتوں میں بھی تشویش پیدا ہوگئی اور بل فوری پاس نہ ہوسکا۔ تاہم جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کی مخالفت کے باوجود دوسرے روز منظوری دیدی گئی۔ انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو دینا بھی اس عمل کی ایک کڑی تھی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد کا یہ اعلان تو انتہائی مضحکہ خیز لگا کہ انتخابات دس سال بھی نہ ہوں تو کوئی بات نہیں۔ راجہ ریاض احمد نے پی ٹی آئی سے بے وفائی کرنے والے تمام سیاستدانوں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگالیا ہوگا کہ شاید اب انہیں دس سال تک کے لیے ویسے ہی عوامی عدالت سے مسترد کردیا جائے اور اسمبلی میں نہ آسکوں تو پھر ان کے لیے دس سال الیکشن نہ بھی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتیں اور اپوزیشن حکومت کا نہیں معیشت کا سوچیں، بی اے پی اور دیگر چھوٹی جماعتیں کے اشارے بھی اسی طرح سے مل رہے ہیں ۔
سیاست نہیں ریاست بچانے کا نعرہ لگانے کے باوجود لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاست بچی ہے نہ وہ ریاست کو مستحکم کر پائے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کو مضبوط کر پائے۔ مسلم لیگ ن اپنی ڈیڑھ سالہ حکومتی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے شاید ابھی الیکشن میں نہیں جانا چاہتی اور اپنی پارٹی کا کوئی بااختیار نگران وزیراعظم بناکر مزید کوئی دو تین سال گزارنے کی خواہش رکھتی ہے مگر پیپلز پارٹی جو نہ صرف اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی ہے بلکہ سندھ حکومت بھی ہاتھ سے جانے کی وجہ کسی صورت انتخابات میں تاخیر نہیں چاہے گی۔ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کی صورت میں نگران حکومتیں محض دو ماہ کے لیے ہوتی ہیں اور انہیں بااختیار بنانے کی کوئی منطق نظر نہیں آرہی اگر وزیراعظم مدت پوری ہونے کی بجائے ایک یا دو دن قبل اسمبلی توڑ دی تو پھر انتخابات ایک ماہ آگے جاسکتے ہیں لیکن حالات یہی لگ رہے ہیں کہ حکومت طویل مدت تک نگران حکومت کی خواہش رکھتی ہے اگر ایسا ہوا تو یہ نہ صرف ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوگا بلکہ ہوسکتا ہے کہ جمہوری بساط ہی لپیٹ دی جائے۔

جواب دیں

Back to top button