پردہ اٹھ چکا

سیدہ عنبرین
غریب کی بیٹی اپنے آشنا کے ساتھ گھر سے چلی جاتی اور نکاح بھی کر لیتی تو اسکا یہ جرم ناقابل معافی تھا، لڑکی کو اغوا کرنے کا پرچہ درج ہوتا پہلی عدالتی پیشی پر اسکے رشتہ دار جمع ہوتے اور عدالتی اہلکاروں کی موجودگی میں مار مار کر اسکا بھرکس نکال دیتے، اسکے خاوند کو بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹا جاتا، چوٹی سے ایڑ ی تک لہو جب تک نہ پہنچتا اس پر تشدد کرنے والوں کی تسکین نہ ہوتی، صبح کے اخباروں میں نمایاں جگہوں پر لڑکی کی تصویریں شائع کی جاتیں، ساتھ ہی بتایا جاتا کہ لڑکی گھر سے فرار ہوتے ہوئے اپنا، اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کا کئی کلو سونا بھی لے گئی ہے جو اس نے ایف آئی آر کے مطابق اپنے آشنا اور نکاح نامے کے مطابق اپنے خاوند کو راتوں رات گھول کر پلا دیا ہے ، لڑکے کے لئے گئے پیشاب کے نمونوں سے اسکی تصدیق بھی ہو جاتی، اسکے علاوہ یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ لڑکا منشیات کا عادی تھا اس کے موبائل سے اپنی منکوجہ کی نازیبا تصاویر اور ویڈیو کا سراغ بھی مل جاتا، پولیس صبح دوپہر شام رات اور نصف شب کے قریب لڑکے والوں کے گھر چھاپے مارتی ، اسکے بوڑھے ماں باپ اور جوان بہنوں کو گھسیٹتے گھسیٹتے تھانے لاتی اور لڑکے تک پیغام پہنچاتی کہ وہ لڑکی کو اسکی مرضی کے خلاف اغوا کا جرم تسلیم کرے ، جرم تسلیم نہ کرنے کی صورت میں اسے جعلی پولیس مقابلے میں پار کرنے کی دھمکی بھی دی جاتی، تفتیش کے مراحل میں لڑکے کے والدین اور بہن بھائیوں کی عمر بھر کی جمع پونچی اپنا وراثتی حق سمجھ کر انکے گھر سے لوٹ لی جاتی، الیکٹرانک میڈیا کو آئندہ ایک ماہ کیلئے سکرین کا رزق مل جاتا، سوشل میڈیائی دانشور ہر شام اپنے پروگرام کے پرومو میں بتاتے کہ فلاں نے سب کچھ بتا دیا، حیرت انگیز انکشافات ہو چکے، درندگی اور ظلم کے واقعے کی تفصیلات دیکھ کر لوگ آبدیدہ ہو گئے۔
آج پانچ روز ہوتے ہیں ایک اعلیٰ پولیس افسر شارق اپنے لگژری فلیٹ میں مردہ پائے گئے ، انکی اپنی خاندانی رہائش ڈیفنس لاہور کے علاقے میں تھی، انکے اپنی بیگم سے تعلقات کشیدہ بتاتے گئے ہیں، مرنے سے قبل جہاں وہ شب بسری کیلئے آئے، انکے ساتھ ایک خاتون بھی موجود تھیں جو اکثر ویک اینڈ پر ان سے ملنے کیلئے وہاں آتی تھیں، واقعے کی شب مذکورہ پولیس افسر نے جنسی ادویات استعمال کیں جن کی زیادتی سے انکی طبیعت خراب ہوئی۔ اخباری رپورٹ کے مطابق انکے پاس موجود اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ گریڈ کی ایک خاتون جو شاعرہ ادیبہ ہیں نے ریسکیو ادارے کو فون پر اطلاع دی جنہوں نے شارق کو ہاسپٹل شفٹ کیا لیکن وہ وہاں پہنچنے سے قبل مر چکے تھے، ہسپتال نے موت کی وجہ انہی ادویات کو قرار دیا، ان تفصیلات کے بعد پولیس نے مذکورہ خاتون کو شامل تفتیش کیا جس کے بعد سے اس واقعے کے بارے میں ہر طرف خاموشی ہے جسکی پہلی اور آخری وجہ یہ ہے کہ معاملہ اعلیٰ گریڈ کے افسروں کا ہے، ایک طرف کے پیٹی بھائی اور دوسری طرف کی پیٹی بہنیں واقعے پر مٹی پائو پروگرام میں مصروف ہیں، مجال ہے کسی کے لب پر اس عورت کا نام آیا ہو جو ممکنہ طورپر شارق کا گھر برباد کرنے کی ذمہ دار ہو سکتی ہے، ایک پڑھے لکھے اعلیٰ سرکاری افسر کا اپنی اچھی بھلی رہائش گاہ چھوڑ کر ایک لگژری فلیٹ میں راتیں گزارنا، پھر تنہائی کو دور کرنے اور زندگی کے غم غلط کرنے کیلئے کسی اور کی قربت سے زندگی کی تصویر میں ہر ملاقات پر نئے رنگ بھرنا کسی کا ذاتی معاملہ ہے نہ اس پر پردے ڈالنے کی ضرورت ہے، دونوں فلیٹ میں جس مقصد کیلئے راتیں گزارتے تھے ان کا پول ان جنسی دوائوں نے کھول دیا جن کے استعمال سے شارق کی موت واقع ہوئی، اسلام آباد سے باقاعدگی سے لاہور شارق کو ملنے والی خاتون اس سے ٹیوشن پڑھنے نہیں آتی تھی نہ ہی وہ اسے سی ایس ایس کے اہم پرچوں اور انٹرویو کی تیاری کرا رہے تھے ، وہ جو کچھ تسلسل سے کر رہے تھے وہ اب اعلیٰ گریڈوں کے حامل ہر چوتھے افسر کی کہانی ہے ، کچھ کہانیاں منظر عام پر نہیں آتیں کچھ آ جاتی ہیں جنہیں اس طرح دفنا دیا جاتا ہے جیسے حرام کے بچے کو سڑک کنارے کسی گڑھے کے سپرد کر دیا جاتا ہے یا کتوں کے بھنبھوڑنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے، ایک نامور سی ایس آفیسر مصطفیٰ زیدی اپنی محبوبہ شہناز گل کے ساتھ اسی انداز میں شب بسری کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے، ایک بیوریج کمپنی کے جنرل منیجر کی موت بھی لاہور میں اسی انداز میں ہوئی، اسکے علاوہ نصف درجن واقعات ابھی کل کی بات ہیں، کوئی گیراج میں گاڑی کھڑی کر کے ایئر کنڈیشنر چلا کر ایسا مدہوش ہوا کہ پھر اسے اور اسکی ساتھی کو دوبارہ ہوش نہ آئی۔ متعدد جوڑے مختلف اوقات میں نشے کی زیادتی کے بعد موت سے ہمکنار ہوئے ، ہر معاملے پر پردہ ڈالنے کی روایت درست نہیں، نامور لوگوں کا کردار بے داغ نہیں، ایک وقت آتا ہے جب قدرت سب کچھ آشکار کر دیتی ہے پھر کوئی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں ہونے والا واقعہ منظر عام پر آچکا ہے، اس پر بھی پردے ڈالے جا رہے ہیں کیونکہ ملزمان اعلیٰ گریڈ یافتہ ہیں جبکہ اس گینگ میں وہ لوگ شامل ہیں جو مستقبل کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ اور انکی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے تھے، تعلیم اور تربیت کے چہرے سے پردہ اٹھ چکا ہے، قومی مجرموں کی شکلیں سامنے لائیں ۔