صائب فیصلہ

امتیاز عاصی
جبر اور پر آشوب ماحول میں عدلیہ آج بھی عوام کی آخری امید ہے۔ ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو عدلیہ کے جج صاحبان نے منصفی کی درخشاں مثالیں چھوڑی ہیں۔ جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس رستم ایس سدھوا ایسے راست باز منصفوں نے بغیر کسی دبائو کے فیصلے دیئے جن کی مثالیں دی جاتی ہیں لہذا عوام کو ماتحت عدلیہ اور اعلیٰ عدلیہ سے پر امید رہنے کی ضرورت ہے۔ گو بعض طالع آزما ء سیاست دانوں نے بعض جج صاحبان کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی جنہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا وہ صحفہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ قرون اولیٰ کے دور کی طرف دیکھیں تو ہمارے اسلاف نے انصاف کی درخشاں مثالیں چھوڑی ہیں۔ خلفیہ دوئم سیدنا عمر فاروق ؓ نے کسی جرم کی پاداش میں اپنے بیٹے کو کوڑوں کی سزا سنائی۔ کوڑے مارتے ہوئے ان کے بیٹے کی جان چلی گئی جناب فاروق اعظم ؓ نے بقیہ کوڑے بیٹے کے مردہ جسم مارنے کا حکم دے دیا۔ کوئی منصف فیصلہ دیتے وقت ذہین میں رکھے اسے ایک روز ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں بے لاگ فیصلے ہونے ہیں تو کوئی بڑے سے بڑا منصفوں کو دبائو میں نہیں لا سکے گا۔ ایک مسلمان کے ناطے ہمیں زندگی کے کسی شعبے میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ امید کے دامن کو تھامے رکھنا چاہیے۔ ہم ماضی کے سیاسی دور کا موازانا موجودہ دور سے کریں تو ایک بات واضح ہے سیاست دانوں کے خلاف جس تیزی سے مقدمات درج ہو رہے ہیں اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاست دانوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے انہیں دلائی کیمپوں میں رکھا گیا مگر عمران خان کے خلاف مقدمات کی جو بھرمار ہو رہی ہے اس نے گزشتہ ادوار کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اتنے مقدمات کے باوجود حکومت اور اس کے وزراء کو پی ٹی آئی کے چیئرمین کی گرفتار کی امید نہیں ہے۔ حکومت کو عدلیہ سے شکوہ ہے وہ عمران خان کو ضمانت دئیے جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے جب کسی مقدمہ میں کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہو گی ایسے مقدمات قانون کی نظر میں قابل ضمانت تصور کئے جاتے ہیں۔ عدلیہ کو آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی ہے بلکہ مشرف دور میں ملک بھر کی وکلاء برادری، سیاسی جماعتوں اور عوام کی جدوجہد کا نتیجہ ہے آج عدلیہ آزاد ہے۔ جب عدلیہ آزاد ہے تو اسے فیصلے بھی آزادی سے کرنے دیئے جانے چاہیں نہ کہ ان کے فیصلوں پر بے جا تنقید کو معمول بنا لیا جائے۔ عجیب تماشا ہے ایک شخص پولیس کی حراست میں ہے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔ اگرچہ نو مئی کو پیش آنے والا سانحہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم تو کہتے ہیں نو مئی کے واقعہ میں ملوث افراد خواہ ان کا تعلق کسی جماعت سے کیوں نہ ہو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ وفاقی دارالحکومت کی عدالت نے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے مقدمہ سے عمران خان کو بری کر دیا ہے ۔ سیاسی حلقوں اور خود عمران خان کے لئے یہ فیصلہ حیران کن ہو گا کہ جبر کے اس دور میں عدالتیں انصاف کے پہلو کو کسی طور نظر انداز نہیں کر رہی ہیں بلکہ قانون اور آئین پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج جناب فرخ فرید بلوچ نے فیصلے میں لکھا ہے عمران خان جو زیر حراست تھا نو مئی کے سانحہ میں ملوث کرنا پولیس کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ فاضل جج نے لکھا ہے پر تشد پلان کو عملی جامہ پہنانے کا الزام مضحکہ خیز ہے کسی بھی شق کی اتنی غلط تشریح یا استعمال نہیں ہوا جیتنا اکسانے سے متعلق شق کا کیا گیا ہے۔ کسی کے اکسانے کے عملی اور جرم کے ارتکاب میں تعلق قائم کرنا ضروری ہے۔ یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ کسی کے اکسانے سے جرم سرزد ہوا ہے۔ فاضل عدالت نے مزید لکھا ہے یہ بھی غلط ہے چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی گرفتاری کا ڈرامہ خود رچایا تاکہ پرتشدد اور خفیہ پلان کو عملی جامہ پہنا سکیں کسی شخص کو پھنسانے کا مضحکہ خیز طریقہ ہے۔ عدالت نے لکھا ہے یہ عمل پولیس کی جانب سے بدنیتی اور مذموم مقاصد کو واضح کرتا ہے۔ درحقیقت فاضل جج نے یہ صائب فیصلہ کرکے ملک بھر میں جہاں کہیں اس نوعیت کے مقدمات درج ہیں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ماتحت عدلیہ کے لئے ایک مثال اور باعث تقویت بھی ہے۔ ایڈیشنل جج کے اس فیصلے کے اثرات اعلیٰ سطح پر یقینی طور پر پڑیں گے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ملک بھر کی پولیس کے لئے بھی سبق ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اسی نوعیت کے مقدمات کے اندراج میں احتیاط کے پہلو کو نظر انداز نہ کر سکیں۔ پولیس ہو یا کوئی ادارہ آخرت میں جواب دہی کا خیال ہو تو کسی کے خلاف غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات سے باز رہے گا۔ افسوناک پہلو یہ ہے حکومتی حلقوں کو عمران خان کو عدلیہ سے ریلیف کی ہمیشہ شکایت رہی ہے۔ دراصل احساس ذمہ داری اور آخرت کی جواب دہی کے خوف سے مبرا پولیس افسران کی طرف سے درج ہونے والے مقدمات کا یہی حال ہوتا ہے جیسا کہ عمران خان کے خلاف درج مقدمہ میں ہوا ہے۔ ہمیں یاد ہے ایک کیس میں ہمارے بہت مہربان جج جسٹس ( ر) عبادالرحمان لودھی کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے ایک کیس میں سفارش کی تو انہوں نے سفارش ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ عمران خان کے دور میں انہیں ایک اہم عہدے پر تعینات کرنے کی کابینہ نے منظوری دے دی جب انہیں اس بات کا علم ہوا جج صاحب تو کسی کی سفارش مانتے نہیں تو انہیں اس عہدے پر تعینات کرنے کا معاملہ سرد خانے میں چلاگیا۔ آج مسلمانوں کے مقابلے میں دوسری اقوام ترقی کی منازل طے کر رہی ہے جس کی وجہ ہے ان کے ہاں انصاف کا پیمانہ ایک ہے۔ سچ تو یہ ہے عمران خان کے خلاف مقدمہ کے فیصلے میں نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والے وقتوں میں منصفوں اور مقدمات درج کرنے والوں کے لئے سبق ہے۔