Column

ملاپ کا موسم

تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کام بہت دھوم دھڑکے سے شروع ہوا تھا پھر خاموشی چھاگئی مگر خاموشی میں بھی کام جاری رہا، ایٹمی دھماکوں کا وقت آیا تو ملک تقسیم تھا، کاروباری طبقہ کہہ رہا تھا ڈالر لے لو دھماکے نہ کرو، قوم کہہ رہی تھی صرف دکھاوے کے دھماکے نہیں اس سے ایک قدم آگے بڑھائو، مشرقی پاکستان کا بدلہ چکائو پھر اس کے بعد بھارت کے پنجے سے اپنی شہ رگ بچائو، نعرے خوب لگائے گئے، ترانے بھی گائے گئے، ساتھ ہی نئی کہانی بھی سنائی گئی کہ ہمارا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے، اس روز سے مجھے ہر وہ بچہ بہت پسند ہے، وہی میرا ہیرو ہے جو بچوں کی لڑائی کے مابین وقتی لڑائی میں یہ کہتا ہے کہ اب اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تھپڑ مار کر منہ لال کردوں گا، بھارت نے ہر موقع پر تھپڑ مار مار کر ہی نہیں بلکہ جوتے مار مار کر ہماری تشریف لال و لال کردی، ہم تعلقات میں بہتری اور تجارت بڑھانے کی باتیں کرتے رہے، اب تو صاف کہہ دیا گیا ہے کہ اپنے وسائل جنگوں میں ضائع نہیں کرنا چاہتے، یہ وزیراعظم پاکستان کا فرمان ہے جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے آغاز میں کشمیر پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی باتیں کی تھیں، عین ممکن ہے اس کے پس منظر میں ملک کی نامور اداکارہ کا وہ بیان ہو جس میں انہوں نے متعدد شادیوں کے بعد فرمایا تھا کہ وہ اس شخص سے شادی کریں گی جو کشمیر کو آزاد کرا کے اس پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا، ایٹم بم اس وقت ایٹم بم کہلاتا ہے اور اپنی پہچان کراتا ہے جب اسے ایک بار چلا دیا جائے اور اپنا مقصد حاصل کرلیا جائے بصورت دیگر یہ جھنجھنا ہی ہوتا ہے اسے الماری میں سجا کر رکھیے اور کبھی کبھار اس کا ذکر کرکے شو کی خاطر میمز حاصل کر لیجئے، کارگل میں ایٹم بم چلایا جاسکتا تھا نہیں چلایا گیا، بھارت کشمیر ہڑپ کر رہا تھا اس وقت بھی چلایا جاسکتا تھا نہیں چلایا گیا، ہاتھ کانپ گئے اور قوم کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، ایٹمی طاقت سے بجلی بنانے کا نیا جھنجھنا پیش کیا گیا اور خوشخبری سنائی گئی کہ ایٹمی بجلی سستی ترین ہوگی اور ہمیں سات پیسے فی یونٹ میں پڑے گی، قوم نے سنا تو محو رقص ہوگئی، وزیراعظم پاکستان آتے رہے جاتے رہے، اب جانے والے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے ہمیں بدقسمتی سے بجلی کی قیمت بڑھانا پڑی ہے، بجلی عام آدمی کیلئے تیس روپے فی یونٹ ہوگئی ہے، بدقسمتی ہمیشہ عام آدمی کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے، حکمران اشرافیہ ہمیشہ اس سے بچ نکلتی ہے خوش قسمتی ان کے
لئے ہے۔ چند روز قبل ایک سٹھیائے ہوئے دانشور جناب وزیراعظم سے ملاقات کیلئے گئے، کام تو یقیناً ان کا کوئی ذاتی تھا لیکن مدعا بیان کرنے سے قبل اپنی وفاداری کا یقین دلانا ضروری تھا مزید برآں یہ باور کرانا بھی ضروری تھا کہ ان سے بڑا ان کے خاندان کا چمچہ آج تک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا پھر انہوں نے قوم کے درد میں ڈوب کر وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ریڈیو پاکستان جیسے اہم قومی ادارے کو ڈوبنے سے بچانے کا نسخہ کیمیا صرف ان ہی کے ہاتھ میں ہے، وزیراعظم نے پوچھا وہ کیا تو بتایا کہ دنیا بھر میں مواصلاتی انقلاب آچکا ہے، ریڈیو کی اہمیت آج بھی برقرار ہے پس وہ تمام پاکستانی جو ریڈیو سے منہ موڑ چکے ہیں ان پر پندرہ روپے ریڈیو فی گھرانہ ٹیکس عائد کر دیا جائے تو ریڈیو پاکستان مالا مال ہوجائے گا، اپنے پائوں پر کھڑا ہوکر درجنوں سرکاری قصیدہ خوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا سنہری موقع بھی مہیا کرے گا، یہ ریڈیو ٹیکس نہیں، ریڈیو نہ سننے کی سزا ہے جو قوم کو سنا دی گئی ہے، اس سے قبل ایسے ہی ایک چمچے نے اس دور کے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ ہر گھرانے پر ٹیلی ویژن ٹیکس لگا دیا جائے یوں ہر گھرانے کے بجلی کے بل میں پنتیس روپے ٹی وی ٹیکس لگا دیا گیا، ریڈیو ٹیکس بھی بجلی کے بل کے ذریعے وصول کیا جائے گا۔
تصور کر لیجئے کہ بجلی کا بل جمع کراتے ہوئے
عوام الناس حکومت اور حکمرانوں کو کن لفظوں سے یاد کرتے تھے اب کن لفظوں سے یاد کیا کریں گے، حکمران طبقے کو چاہیے کہ اسمبلیاں توڑنے سے قبل جاتے جاتے ہر سانس پر ٹیکس لگاتی جائے، یہ ٹیکس بھی بجلی کے بلوں میں وصول کیا جائے، طریقہ کار طے کرنا چنداں مشکل نہیں ہر گھر کے اندر ایک سانس میٹر نصب کر دیا جائے مہینے بعد اس کی ریڈنگ لیکر فی سانس قیمت کے مطابق بجلی کے بل میں شامل کر دیا جائے، جو شہری بجلی کا بل ادا نہیں کرتا اس کی بجلی منقطع کردی جاتی ہے، اسی طرح جو شہری سانس یا زندگی ٹیکس ادا نہیں کر سکے گا اس کے جسم و جان کا رشتہ منقطع کر دیا جائے، اس ٹیکس کے کئی فائدے ہونگے، آبادی پر کنٹرول ہوجائے گا، آئی ایم ایف جیسے سانپ کو ایک نیا راستہ مل جائیگا، پھر آئندہ کیلئے ہر شہری کو گروی رکھ کر عالمی مالیاتی اداروں سے آسان قسطوں اور زیادہ سے زیادہ شرح سود پر قرض کا حصول بے حد آسان ہو جائیگا، قومی خزانے میں اضافہ ہوگا، اسے لوٹ کر اپنے پیاروں کی پہلے سے بدلی ہوئی تقدیر کو مزید بہتر بنانے کا ایک اور موقع میسر آئے گا، ریڈیو ٹیکس کی تجویز دینے والے مخبوط الحواس اور سٹیھائے ہوئے دانشور کو اگر ریڈیو پاکستان کا منیجنگ ڈائریکٹر یا چیئرمین لگاکر اس کا عہدہ اور مراعات وزیر کے برابر کرنے کا نوٹیفکیشن سامنے آجائے تو پلیز حیران نہ ہوں اپنی بدقسمتی کا ماتم کریں اور انہی فیصلہ سازوں کو عام انتخابات میں ووٹ ضرور دیں تاکہ آپ کی بدقسمتی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔
دو اہم خبریں نظر سے گزری ہیں دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن آپ چاہیں تو باہمی تعلق جوڑ بھی سکتے ہیں، جناب آصف زرداری خصوصی پرواز سے جناب نواز شریف سے ملنے کیلئے دبئی پہنچ چکے ہیں، دوسری خبر ساون بھادوں میں بارشوں سے ندی نالے بھر جاتے ہیں، ایسے میں پانی ان کے بلوں میں گھس جاتا ہے یہ باہر نکل آتے ہیں، ساون بھادوں سانپوں کے ملاپ کا موسم کہلاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button