آئی ایم ایف نے جکڑ دیا ہے

آئی ایم ایف نے جکڑ دیا ہے
علی حسن
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کے15ماہ تو فائر فائٹنگ میں ہی گزر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی مدت میں سیلاب نے بھی ملک بھر میں تباہی مچائی، ہزار ایکڑ زمین پانی میں ڈوب گئی۔ سیلاب کی آفت سے نمٹنے کے لئے وفاق نے100ارب روپے چاروں صوبوں میں تقسیم کئے۔ صوبوں نے بھی اپنے وسائل سے اربوں روپے خرچ کئے پھر مہنگائی کا طوفان آگیا، پھر گندم درآمد کرنا پڑ گئی، تیل درآمد کرنے پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوچکا بلکہ پاکستانی معیشت میں بہتری لانے کا موقع بھی مل گیا۔ معیشت میں اصلاحات کے لیے جو منصوبہ بندی کی ہے وہ اہم ہے، ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے، ہم آئی ایم ایف کی شرائط کے پابند ہیں، ہم نے معاہدے کی پاسداری کرنی ہے۔ میثاق معیشت پر قوم متحد ہوجائے، کوئی حکومت آئے اس کو نہ چھیڑ سکے، ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوگیا، زرمبادلہ کے ذخائر14ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ اب ہمیں قرضوں سے نکلنا ہوگا، جن ممالک سے ملتا ہوں ان سے کہتا ہوں کہ خدا کرے اب قرض کی درخواست نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ علم ہے کہ ماضی میں اکنامک زونز میں سٹے بازی شروع ہوئی، اگر ہماری یہی حرکتیں رہیں تو پھر اللّٰہ بھی ہم پر کرم نہیں کرے گا۔ آئی ایم ایف کو بہت ساری یقین دہانیوں کے علاوہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے نئے قرض معاہدے پر عمل درآمد کی تحریری یقین دہانی کرائی ہے۔ ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی آئی ایم ایف قرض معاہدے پر کاربند رہنے کے لیے پر عزم ہیں۔ آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق بڑی سیاسی جماعتوں نے پروگرام کے مقاصد اور پالیسیوں کی حمایت کردی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات جاری کر دیں۔
کسی کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کی تجاویز کو تسلیم نہ کرتا۔ موجودہ معاہدہ ایک طرح سے پاکستان کو مکمل جکڑ دینے کی کہانی ہے۔ پاکستان میں حکومتیں ماضی میں جو کچھ کرنے میں ناکام رہی ہیں، آئی ایم ایف نے پاکستان سے وہ سب کچھ تسلیم کرا لیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا گیا ہے۔ پاکستان نے تنخواہوں اور پنشن اخراجات کم کرنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے طے پانے والی مزید اہم شرائط کے مطابق منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف فیٹف شرائط پر عملدرآمد کا عزم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے الیکٹرانک ایسیٹ ڈیکلریشن سسٹم قائم کر دیا گیا ہے۔ گریڈ17سے22کے افسران بیرونی اثاثے نہیں چھپا سکیں گے۔ آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق بینکوں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات تک رسائی ہوگی، اس حوالے سے تمام بینکس ایف بی آر کو فیڈ بیک دینے کے پابند ہوں گے۔ دستاویز کے مطابق منتخب یا غیر منتخب عوامی نمائندوں کے سالانہ اثاثہ ڈیکلریشن کو عام کیا جائے گا، سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ سرکاری اداروں کی کارکردگی رپورٹ جاری کرے گا۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غریب ترین طبقے کو مہنگائی کے حساب سے ریلیف دینے کا عزم کیا گیا ہے، توانائی شعبے میں بنیادی ٹیرف میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گیا۔ آئی ایم ایف کو ہائوسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں خامیاں دور کرنے اور ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں مداخلت یا کوئی پابندی نہ لگانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔
پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کو زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس لگانے کا یقین دلا دیا، یہ بھی یقین دلایا کہ کسی کو کوئی نئی ٹیکس چھوٹ ملے گی نہ ایمنسٹی سکیم جاری کی جائے گی، کرنسی کی شرح تبادلہ مارکیٹ کے مطابق رکھی جائے گی، ڈالر کے اوپن اور انٹر بینک ریٹ میں1.25فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا، پاکستان نے آئی ایم ایف سے تنخواہوں اور پنشن اخراجات کم کرنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے، سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ رپورٹ جاری کی جائے گی، حکومت سٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی۔ آئی ایم ایف پاکستان کے پروگرام پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کرتا رہے گا جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ 9ماہ کے سٹینڈ بائی معاہدے پر ثابت قدمی سے عمل مانیٹری پالیسی میں مزید سختی لانا ہو گی۔ رواں ماہ کے آخر میں سالانہ بنیادی بجلی نرخ میں اضافہ کیا جائے گا۔ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے صوبوں کو سرپلس بجٹ دینا ہو گا، ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے، پاکستان میں مہنگائی25.9جبکہ بیروزگاری کی شرح8فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ توانائی کے شعبے کی سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی، تنخواہوں اور پنشن کی مد میں اخراجات کو کم کیا جائے گا۔ حکومت معاہدے کے تحت نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم جاری نہیں کرے گی، حکومت ٹیکس چھوٹ یا ٹیکس مراعات جاری نہیں کرے گی جبکہ سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ رپورٹ بھی جاری کی جائے گی۔ آئی ایم ایف اعلامیہ کے مطابق ڈالر کے اوپن اور انٹربینک ریٹ میں1.25فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا،2024ء میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ معاہدے کے تحت سرکاری اداروں میں گورننس کی بہتری کے قانون کو فعال کیا جائے گا، نیشنل اکائونٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری ضروری ہے، سٹیٹ بینک کو مانیٹری پالیسی پر خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔
موجودہ حکومت ہو جو جانے جانے کو ہے، نگران حکومت ہو جو انتخابات کرانے لائی جائے گی اور انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت ہو، کسی کے لئے بھی پاکستان میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی روشنی میں حکومت چلانا پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔ آنے والے حالات ہر لحاظ سے بہت زیادہ کٹھن ہوں گے۔ حکومت پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ تمام سرکاری خرچوں میں کٹوتی کی جائے اور حکمرانوں کو سخت ترین تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی تمام شقوں پر دستاویز کی روشنی میں عمل نہیں کیا گیا تو حالات پاکستان کو بند گلی میں لے جا کر کھڑا کر دیں گے۔