ColumnImtiaz Aasi

انتخابی اصلاحات اور معاشی حالات

انتخابی اصلاحات اور معاشی حالات

امتیاز عاصی
خبر ہے حکومت نے سوا سال بعد انتخابی اصلاحات پر قریبا کام مکمل کر لیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر آن لائن انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ یہ بات یقینی ہے علی ظفر عمران خان کی رضامندی سے اجلاس میں شریک ہوئے ہوں گے حالانکہ عمران خان کے دور میں انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں اس وقت کی اپوزیشن نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حید ر نے اجلاس میں نمائندگی کی اور انتخابی اصلاحات پر کافی حد تک مطمئن ہیں۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے انتخابی اصلاحات بارے پی ٹی آئی کے تحفظات کو جلد دور کر لیا جائے گا۔ ملکی تاریخ گواہ ہے ماسوائے ستر کے انتخابات کے جیتنے الیکشن ہوئے ہیں متنازعہ رہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے ہمارے ہاں ہارنے والی جماعت شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی حالانکہ ہارنے والے فریق کو شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے جو بہت کم سیاست دانوں دیکھنے میں آیا ہے۔ دراصل سیاست دانوں کو نہ تو ملک اور نہ عوام سے کوئی لینا دینا ہوتا ہے انہیں اپنے اقتدار سے لگائو ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اپنے مفادات کے لئے جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ عمران خان نے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی غلطی کی تو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا وہ الیکشن نہیں ہونے دے دیںگے۔ چنانچہ یہی ہوا سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود الیکشن نہیں ہوا۔ جس ملک میں اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی بے توقیری ہوتی ہو ایسے ملک ترقی کر سکتے ہیں؟، آئینی طور پر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار چھوڑنا چاہیے تاکہ انتخابات ساٹھ روز کے اندر ہوجائیں لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے حکومت آئینی مدت پوری کئے بغیر اسمبلیاں تحلیل کرے گی جس کے بعد نوے روز میں الیکشن ہوں گے۔ تادم تحریر پرانی مردم شماری کے مطابق انتخابات کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے کہیں ایسا تو نہیں نگران سیٹ آپ آنے کے بعد نئی مردم شماری کا شوشہ چھوڑ کر نگران سیٹ اپ کو طوالت دے دی جائے۔ درحقیقت سیاسی جماعتوں کو تحریک انصاف کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے حصے بخرے کرنے کے باوجود ذمہ داروں کو یقین نہیں آرہا انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے۔ گو بعض طالع آزمائوں نے تحریک انصاف پر پابندی کی بھرپور کوشش کی اس کے باوجود انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کوئی آسان کام نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگائی تو وہ نئے نام اے این پی سے میدان میں آگئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے ذمہ داروں کو عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے منصفانہ اور غیر جانبدارنہ الیکشن کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ عوام اور بیرونی دنیا نئی حکومت کو تسلیم کر سکیں۔ موجودہ حکومت نے معاشی مسائل اور مہنگائی کا بہانہ بنا کر اقتدار سنبھالاتھا۔ بظاہر دیکھا جائے تو حکومت نے معاشی مسائل کے حل کے لئے کوئی طویل المدتی پالیسیاں نہیں بنائی ہیں ماسوائے آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے قرض لینے کے حکومت نے معاشی حالات کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے کوئی بھی حکومت ہوتی وہ قرضہ لے سکتی تھی۔ آئی ایم ایف سے قرض کو کوئی معاشی کامیابی قرار دینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض کا گرین سگنل ملتے ہوئے بجلی کی ٹیرف میں اضافہ کے ساتھ زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس کی نوید سنا دی گئی ہے۔ سوال ہے حکومت نے عوام کا کیا دیا غریب عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جو آئی ایم ایف کے مقروض ہیں اور جن کے معاشی حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں ملکی برآمدات میں اضافے کے ساتھ ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا تارکین وطن نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں ریکارڈ سرمایہ کاری ہے جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں نہ تو برآمدات میں اضافہ ہوا نہ ہی ترسیلات زر اضافہ ہوا بلکہ ترسیلات زر میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے جو اس امر کا غماز ہے تارکین وطن کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے تارکین وطن کو ووٹ دینے کا حق دینے کی کوشش کی گئی تو حکومت نے اس ناکام بنا دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تارکین وطن کے لئے اسلام آباد کے نواح میں رہائشی منصوبے کا اعلان کیا، کئی ماہ گزرنے کے باوجود اس منصوبے میں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ یہ بات باعث شرم ہے کہ آئی ایم ایف کے سربراہ کو کہنا پڑا ہے پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ کرپشن ہے۔ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے نیب قوانین میں من پسند ترامیم کر لیں۔ جس ملک میں منی لانڈرنگ کو جرم نہیں سمجھا جائے ؟، کرپشن کرنے والوں کو سزائیں دینے کی بجائے انہیں چھوڑ دیا جائے، کیا ایسے ملک معاشی ترقی کر سکتے ہیں؟، یہاں تو جرم کرنے والے بڑوں بجائے سزائیں دینے کے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ چند روپے پٹرول سستا کرکے اسے کامیابی کا نام دیا جا رہا ہے اس کے برعکس مہنگائی کے ہاتھوں دو وقت کی روٹی کے محتاج غریب عوام کسی مسیحا کے متلاشی ہیں۔ کپڑے بیچ کر سستا آتا فراہم کرنے والے وزیر اعظم سے کوئی پوچھے سوا سال میں عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کون سے اقدامات کئے ہیں۔ جہاں تک انتخابی اصلاحات کی بات ہے پری پولنگ دھاندلی روکنے کے لئے نئی اصلاحات میں کیا اقدامات تجویز کئے گئے ہیں؟، بعض حلقوں کا خیال ہے پی ٹی آئی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے نگران سیٹ آپ کو طوالت دی جا سکتی ہے۔ نگران وزیراعظم کے لئے جو نام آرہے ہیں اگر ایسا ہوا تو ملک کا اللہ حاٗفظ۔ انتخابات اسی وقت غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تصور کئے جا سکتے ہیں جب پری پولنگ دھاندلی Pre polling Riggingاور غیر مرئی قوتوں کی مداخلت کے خاتمہ یقینی ہو ورنہ ہارنے والی جماعت اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گی اور ملک ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button