Column

پنجاب کے سرکاری ملازمین کو مبارک ہو

پنجاب کے سرکاری ملازمین کو مبارک ہو

رفیع صحرائی
بالآخر صوبہ پنجاب کے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی سنی گئی۔ وزیرِ اعظم کے مشیر جناب احمد خاں نے اگیگا کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بعد ان کے تمام مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی جس پر اگیگا قائدین نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا تاہم اگیگا کی قیادت نوٹیفکیشن کے اجرا ء تک لاہور میں ہی قیام کرے گی اور اگر حسبِ وعدہ ایک ہفتہ میں نوٹیفکیشن کا اجراء نہ ہوا تو قائدین کی طرف سے دوبارہ دھرنے کی کال دی جائے گی۔ میرے خیال میں دوبارہ دھرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ وزیرِ اعظم کے مشیر جناب احمد خاں بڑے با اصول سیاستدان ہیں۔ مسلم لیگ ن میں بھی وہ ایک قدآور شخصیت ہیں۔ اپنے وقار کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔ وہ بہت کمیٹڈ انسان ہیں۔ کبھی ایسا وعدہ نہیں کر سکتے جس پر پورا نہ اتر سکیں۔ میں جتنا ان کو جانتا ہوں اس بنا پر یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ مذکورہ نوٹیفکیشن جاری نہ کروا سکے تو مسلم لیگ ن ایک بڑے سیاسی لیڈر سے محروم ہو سکتی ہے۔ اس لئے سرکاری ملازمین اور پنشنرز حوصلہ رکھیں۔ انہیں جناب احمد خاں کی صورت میں حکومت کے اندر سے اپنا وکیل میسر آ گیا ہے۔ اب آتے ہیں سرکاری ملازمین کے پانچ روزہ دھرنے کی جانب۔ حقیقت میں یہ پنجاب کے سرکاری ملازمین کی جانب سے حکومتِ وقت کے خلاف پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تھا جس میں سرکاری ملازمین کا سمندر امنڈ آیا تھا۔ ملازمین حکومت سے کوئی خصوصی مراعات لینے کے لئے اکٹھے نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ پنجاب کے ملازمین کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و زیادتی کو ختم کر کے انہیں وفاق اور دوسرے صوبوں کے برابر حقوق و مراعات دی جائیں۔ پنجاب حکومت نے سنگ دلی اور بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے ساتھ پہلا ظلم تو یہ کیا کہ ان کی تنخواہ میں صرف 30فیصد اضافہ کیا جبکہ مرکز میں یہ اضافہ 35فیصد تھا۔ دوسری زیادتی یہ کی گئی کہ رننگ تنخواہ کی بجائے انیشل سٹیج پر یہ اضافہ کیا گیا جس سے اکثر ملازمین کی تنخواہ میں حقیقی اضافہ دس فیصد سے بھی کم بنتا تھا۔ وفاق نے پنشنروں کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کیا جبکہ پنجاب نے پنشن میں صرف 5فیصد اضافہ کر کے پنشنرز کی بددعائیں جھولیاں بھر کر سمیٹیں۔ ایک اور کلہاڑا ملازمین پر یہ چلایا گیا کہ ریٹائرمنٹ پر ان کی گریجویٹی بھی ابتدائی سٹیج کی بنیادی تنخواہ پر کر دی گئی۔ ریٹائرمنٹ پر سرکاری ملازم کو لیو انکیشمنٹ کی صورت میں آخری وصول شدہ بیسک پے کے حساب سے بارہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ یہ بھی رننگ کی بجائے انیشل بیسک پے پر کر دی گئیں۔ یعنی سرکاری ملازم کو اگر بارہ لاکھ روپے ملتے ہیں تو وہ رقم ساڑھے تین لاکھ روپے کے قریب کر دی گئی۔ یہ ایسے ظالمانہ فیصلے تھے جنہوں نے دس لاکھ سرکاری ملازمین کا مستقبل تاریک کر دینا تھا۔ ملازمین سراپا احتجاج بن کر لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے۔ اس موقع پر بجائے ان ملازمین کے ساتھ ہمدردی کرنے کے حکومت پنجاب نے ایک اور انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے دھرنے کے تیسرے روز یعنی 12جولائی کو ان ملازمین پر ظلم کا ایسا پہاڑ توڑا کہ یوں لگنے لگا یہ حکومت ملازمین کو خود سوزی پر مجبور کر رہی ہے۔ 12جولائی کو ایک مزید نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا جس میں سرکاری ملازمین کی پنشن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اسے رننگ بیسک پے کی بجائے انیشل بیسک پے کے تحت دینے کا نادر شاہی فرمان جاری کر دیا گیا۔ یعنی جس سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ پر پنشن قریباً ساٹھ ہزار روپے بنتی تھی وہ قریباً بیس ہزار روپے پر آ گیا۔ یہ صورتِ حال پنجاب کے ملازمین کو مرو یا مار دو کے مقام پر لے آئی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ زیادتی پنجاب کے سرکاری ملازمین کے ساتھ ہی کیوں روا رکھی جا رہی ہے۔ وفاق کے علاوہ سندھ، کے پی اور بلوچستان میں سے کسی صوبے کے ملازمین کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا حتیٰ کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی تنخواہ اور پنشن میں وفاق کی طرز پر بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ کہیں پر بھی ملازمین کی پنشن، گریجویٹی یا لیوانکیشمنٹ کو نہیں چھیڑا گیا۔ بعض لوگوں نے اسے نگران وزیرِ اعلیٰ جناب محسن نقوی کی زیادتی قرار دیا تو کسی نے اسے جناب آصف زرداری کی سازش قرار دیا کہ انہوں نے اپنے انتہائی چہیتے جناب محسن نقوی کے ذریعے مسلم لیگ ن کے خلاف سازش کی ہے تاکہ پنجاب میں لوگ ن لیگ سے نفرت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔ یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ جناب محسن نقوی اپنے طور پر اتنا بڑا فیصلہ ہرگز نہیں کر سکتے تھے کہ پورے ملک کے برعکس اپنے صوبے کے سرکاری ملازمین کو سولی پر لٹکا دیتے۔ جناب آصف زرداری والی بات بھی محض قیاس آرائی اور الزام کے سوا کچھ نہیں۔ پانچ دن تک سخت گرمی اور حبس کے موسم میں نوجوان، خواتین اور بزرگ سرکاری ملازمین لاہور کی تپتی سڑکوں پر چلچلاتی دھوپ میں بیٹھے رہے مگر الیکٹرانک میڈیا کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔ وہ میڈیا جو کسی دور دراز علاقے میں ایک کتے کے مرنے کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرتا ہے اسے پچاس ساٹھ ہزار ملازمین کا جمِ غفیر لاہور جیسے شہر میں پورے پانچ دن تک نظر کیوں نہیں آیا۔ اس کی وجہ میڈیا کا کنٹرولڈ ہونا ہے اور میڈیا کو آصف زرداری کنٹرول نہیں کر سکتے۔ یہ کام جناب اسحاق ڈار یا میاں شہباز شریف ہی کر سکتے ہیں۔ جناب محسن نقوی بھی زیادہ سے زیادہ اپنے ذاتی چینلز کو روک سکتے ہیں۔ دھرنے کے دوسرے روز ایک صحافی نے میاں شہباز شریف سے پنجاب کے سرکاری ملازمین کے حقوق اور دھرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ پنجاب حکومت سے بات کر کے پنجاب کے ملازمین کو وفاق کے مساوی مراعات دلوائیں گے مگر اگلے تین روز تک ان کا وعدہ ایفا ہوتا نظر نہیں آیا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ انہوں نے جناب محسن نقوی سے بات کی ہو اور انہوں نے انکار کر دیا ہو؟۔ پچاس ساٹھ ہزار کے قریب لوگ دھرنے میں پہنچ گئے۔ جو نہ پہنچ سکے انہوں نے بھی کمال کر دیا۔ پورے پنجاب میں دفاتر کی تالہ بندی کر دی گئی۔ قلم چھوڑ ہڑتال کر دی گئی اور پنجاب سرکار عملی طور پر مفلوج ہو گئی۔ جناب محسن نقوی صاحب کا رویہ ان پانچ دنوں میں بڑا عجیب رہا۔ میڈیا پر دھرنے کے دوسرے دن ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ ملازمین کو چاہئے احتجاج کی بجائے اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کریں۔ یہ ایسا جواب تھا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان کے ساتھ بھی سوال گندم جواب چنا والا معاملہ تھا۔ اتنے معصوم تھے کہ نیسکیف اور نیسلے کے مابین فرق کا انہیں نہیں پتہ تھا۔ جناب محسن نقوی بھی ایسے ہی سادہ اور بھولے بھالے ہیں کہ اپنے کئے گئے فیصلوں کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل سننے کا اختیار مختلف محکموں کو دے رہے تھے۔ جناب محسن نقوی کے بھولے پن کا مزید اندازہ اسی بات سے لگا لیجئے کہ وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا وزیرِ اعلیٰ سمجھ رہے ہیں۔ بروز جمعہ یعنی 14جولائی کو سرکاری ملازمین کے دھرنے کے پانچویں دن ان سے بی بی پاک دامن کے مزار پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ قریباً ہر محکمے کے ملازم سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، کیا آپ کے پاس ان کی تنخواہوں میں کمی کا اختیار ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس چار مہینے میں جو اختیار تھا میں نے استعمال کر لیا۔ اگلا سوال تھا، کیا آپ ان ملازمین سے ملاقات کریں گے؟۔ جواب میں فرمایا کہ وہ دھرنے کے شرکاء سے نہیں ملیں گے اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ جانے اس وقت محترم نقوی صاحب کو اپنے اختیارات کا کتنا زعم تھا کہ ان کے اس بیان کے قریباً دو گھنٹے بعد مشیر وزیرِ اعظم جناب احمد خاں اگیگا کے قائدین سے ملاقات کر رہے تھے مگر اس موقع پر انہوں نے جناب محسن نقوی کی طرف سی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔ وہ وفاق کے نمائندے بن کر آئے۔ اس بات کا ذکر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جناب احمد خان کو اچانک کیوں دھرنے میں بھیجا گیا۔ دراصل ایک روز پہلے جماعت اسلامی کے سربراہ جناب سراج الحق نے دھرنے میں پہنچ کر سرکاری ملازمین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے تقریر بھی کی تھی۔ اس کے بعد ٹی ایل پی کی طرف سے بھی حمایت کا اعلان سامنے آ گیا اور جمعہ کے دن جناب بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر پاکستان پیپلز پارٹی لاہور کے صدر جناب اسلم گِل نے دھرنے کے شرکا ء سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف اظہارِ یکجہتی کیا بلکہ حکومتِ پاکستان اور نگران وزیرِ اعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ سرکاری ملازمین کے مطالبات فوری طور پر تسلیم کئے جائیں بصورتِ دیگر پیپلز پارٹی کی قیادت احتجاج میں مظاہرین کے ساتھ بیٹھے گی اور مطالبات کی منظوری تک ان کی سپورٹ سرکاری ملازمین کے ساتھ رہے گی۔ یہ صورتِ حال شہباز شریف کے لئے قابلِ قبول نہ تھی۔ سرکاری ملازمین کے دلوں میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کے لئے ناپسندیدگی پیدا ہو رہی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی سیاست بچانے کا فیصلہ کر لیا۔ بہرحال پنجاب کے سرکاری ملازمین نے موسم کی سختیوں کے باوجود جس طرح مطالبات تسلیم ہونے تک ثابت قدمی سے اپنا احتجاج جاری رکھا اس پر وہ واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

جواب دیں

Back to top button