ColumnZia Ul Haq Sarhadi

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ

ضیاء الحق سرحدی

عظیم صوفی بزرگ حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کے780ویں سالانہ عرس کی15روزہ تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس بر گزیدہ بندے کا نام حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ تھا ’’ نور العارفین بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ‘‘ کا عہد572ہجری سے 665ہجری تک بنتا ہے آپ کا عرصہ حیات تقریباً 93برس پر محیط ہے بابا فریدالدین ؒ کے بے شمار خلفائے تھے ، جو کا ملین میں شمار ہوتے ہیں میں مختصر نام قلمبند کروں گا ، تاکہ قارئین جان سکیں ۔ حضرت شیخ علائو الدین علی احمد صابرؒ، حضرت شیخ نظام الدین اولیائؒ ، شیخ شمس الدین ترک پانی پتیؒ ، شیخ جمال الدین ہانسوی ؒ، شیخ یعقوب ابن بابا فرید ؒ، شیخ بدر الدینؒ ، شیخ نجیب الدین متوکل ؒ، شیخ عارف سیو ستانی ؒ اور بہت سے ان گنت خلفائے تھے جنہوں نے دُنیائے تصوف میں نام پیدا کیا اور دین اسلام کو فروغ دیا۔ بابا فرید گنج شکرؒ نے اپنے کردار و عمل اور تعلیمات سے برصغیر میں اسلام کا بول بالا کیا، اولیائے کرامؒ کا بنیادی فریضہ قلوب کی اصلاح ہے اور بابا فریدؒ نے ہزاروں سینوں میں اسلام کی شمع روشن کی اور یہی وجہ ہے کہ آج پونے آٹھ سو سال کے بعد بھی حضرت بابا فریدؒ کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے برصغیر پاک و ہند میں تبلیغ اسلام کا تمام تر کام اولیاء کرامؒ اور بزرگان دین کے ہاتھوں انجام پایا اور یقینا یہ تاریخ عالم کی بہت اہم مثالوں میں سے ایک ہے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ بھی اللہ کے ان پیارے بندوں میں شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تمام زندگی اللہ کی رضا کے حصول کیلئے وقف کر دی وہ نہ صرف اپنے دور کے عظیم صوفی، عالم اور مبلغ ہیں بلکہ انہیں پنجابی شاعری کے بانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، بابا فریدؒ کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اکثر شعر جنہیں اشلوک کہا جاتا ہے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر یا احادیث کے تراجم ہیں اور یہ ان کی شاعری ہی تھی جسے انہوں نے تبلیغ اسلام کیلئے استعمال کیا بابا فریدؒ کی شاعری کے حوالے سے سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ ان کا کلام محفوظ نہیں رہ سکا ان کے صرف وہ اشعار یا اشلوک آج ہم تک پہنچے ہیں جو سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے سکھوں کی مذہبی کتاب ’’ گرو گرنتھ صاحب‘‘ میں تحریر کروا دئیے تھے اب ہمارے پاس اس کلام کے علاوہ بابا فریدؒ کی کوئی شاعری موجود نہیں ان کے شعر جنہیں شلوک یا اشلوک کہا جاتا ہے ان کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی، ہجر و فراق کی کیفیت قرآن مجید کی سچی تعلیم اور اخلاقی قدروں کی پہچان کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں جیسے کہ انہوں نے فرمایا کہ : رُکھی سُکھی کھاء کے ٹھنڈا پانی پی، دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی، ترجمہ: اے فرید! تجھے جو روکھی سوکھی روٹی میسر آتی ہے اسے کھا اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی کر گزارا کر تجھے دوسروں کی چپڑی روٹی دیکھ کر اپنے جی کو نہیں ترسانا چاہئے تو اس روکھی سوکھی پر قناعت کرے گا تو ساری عمر سکھی رہے گا اور دوسروں کی طرف دیکھ کر چپڑی روٹیوں کا لالچ کرے گا تو یہ لالچ تجھے ساری زندگی دکھی رکھے گی۔ فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کوء جیو ندیاں پیراں تلے ، مویاں اُپر ہوئ: ترجمہ: اے فرید! مٹی کو برا نہیں کہنا چاہئے اس دنیا میں مٹی جیسی اور کوئی چیز نہیں یہ اسی مٹی کا وصف ہے کہ انسان کے جیتے جی وہ اس کے پیروں تلے ہوتی ہے مگر مسلسل پامالی ہونے کے باوجود کوئی شکایت نہیں کرتی اور جب انسان مر جاتا ہے تو یہی مٹی اس کے اوپر آکر اس کی قبر میں اس کے حال کی پردہ پوشی کر لیتی ہے۔ یعنی کہ ایک شعر میں کتنی بڑی حقیقت آشکارہ کی گئی ہے دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہے۔ بابا فریدؒ لوگوں کو دینی تعلیم وتبلیغ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اشلوکوں ( شاعری) میں اس زمانے کے عام لوگوں کی زندگی محفوظ کر رہے تھے۔ فرید اروٹی میری کاٹھ دی لاون میری بُکھ جھناں کھاہدی چو پڑی گھنے سہن گے دُکھ، اب بابا فریدؒ کے کلام کو اس وقت کے لوگوں کی زندگی کے پس منظر میں دیکھیں تو ’’ روٹی میری کاٹھ دی‘‘ رمز ہے۔ نچلے طبقے کے حالات کی جو نہایت مشکل سے ، سخت محنت و مشقت سے کمائی گئی روٹی بھوک کے سالن کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اگر یہ بات بابا فریدؒ کی زندگی سے متعلق لکھی جانے والی پہلی کتاب سیر الاولیاء میں حضرت نظام الدین اولیاؒء نے نہ کہی ہوتی تو پھر’’ کاٹھ کی روٹی ‘‘ کا مطلب صرف وہی روٹی رہ جاتی، جسے محکمہ اوقاف نے بابا فریدؒ کی ذات سے منسوب کرکے ایک فریم میں سجا کر رکھا ہوا ہے اور یہ مشہور کر رکھا ہے کہ بابا جی نے اس روٹی کو گلے میں لٹکا رکھا تھا، جب بھوک لگتی تو اسے چبا لیتے تھے اور یہ بات ایک ایسے عظیم المرتبت بزرگ بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ کے بارے میں مشہور کی گئی ، جنہوں نے کہا کہ روٹی دین کا چھٹا رکن ہے۔ اس اشلوک میں صر ف ’’ کاٹھ کی روٹی‘‘ ہی رمز نہیں بلکہ’’ چوپڑی‘‘ بھی ایک رمز ہے۔’’ چوپڑی ‘‘ یعنی گھی سے چُپڑی ہوئی روٹی، اشارہ ہی اس طبقے کی طرف جو دوسروں کی محنت کا رس چوس کر اپنی زندگی میں آسائشیں پیدا کرتے ہیں۔ ایک طبقے کی چُپڑی ہوئی روٹی یعنی عیش و عشرت دوسرے طبقے کی ’’ کاٹھ کی روٹی‘‘ یعنی غربت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس اشلوک کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ دوسروں کی محنت کے بل بوتے پر اپنی زندگی کو پُر آسائش کئے پھرتے ہیں وہ آگے جا کر بہت دُکھ اُٹھائیں گے۔ مراعات یافتہ طبقے کو زیادہ دُکھ اُٹھانے کی طرف اشارہ کرکے بابا فرید ؒ نے خود کو غربت کی زندگی بسر کرنے والے طبقے کا ہمدرد قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابا فریدؒ نے عربی، فارسی کے عالم ہونے کے باوجود اپنی شاعری کیلئے عام لوگوں کی زبان ’’ پنجابی‘‘ کو ذریعہ اظہار بنایا۔ حضرت بابا فریدؒ جب مادر شکم میں تھے توا سی وقت کشف و کرامات کا ظہور ہونے لگا تھا۔ جو اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ ہونے والا بچہ مادر زاد ولی اللہ ہے ۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ شب بیداراور ذکر و نوافل کثرت سے پڑھتی تھیں اور گریہ کناں رہتی تھیں۔ سردیوں کی سرد اور تاریک رات تھی، مخلوقِ خدا گرم لحافوں میں لپٹی میٹھی نیند کی گود میں سو رہی تھی۔ اس اندھیر ی وطویل رات میں یہ کاملہ بی بی بارگاہ خداوندی میں عاجزانہ کھڑی مصروف گر یہ تھی ۔ ان کی زبان پر یہ دُعا تھی’’ اے کائنات کے مالک و خالق ، اللہ رب العزت ، تیری یہ عاجز بندی تجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت و معافی چاہتی ہے، تو غفور الرحیم ہے، میرے صغیرہ وکبیر ہ گناہوں کو معاف فرما دے ، میری کوتاہیوں کو در گزر فرما دے ، یہ تیر ی صفات ہیں ، تو معاف کرنے والا اور در گزر کرنے والا ہے، تجھ کو تیرے صفاتی اسماء الحسنیٰ کا واسطہ، میری کمزوری ، ناتوانی اور رو سیاہی کے پیش نظر موت سے قبل ہی مجھ عاجز کو بخش دے، کیونکہ روزِ حشر مجھ سے میرے گناہوں اور کوتاہیوں کی بابت باز پرس کی جائے گی، تو اس وقت میرے پاس کوئی جواب و جواز نہ ہوگا‘‘۔ اسی عالم گریہ میں ایک چور گھر میں داخل ہوا اور دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی اندھا ہوگیا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ کسی بزرگ اور خدا کے مقبول بندے کا گھر ہے۔ اسی وقت کھڑے کھڑے دل سے توبہ کی اور عہد کیا کہ اگر میری بینائی واپس آگئی تو پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔ کاملہ بی بی بھی فوراً جان گئی اور اس چور کے حق میں دُعائے خیر فرمائی، اس کی بینائی فوراً لوٹ آئی اور جلدی وہاں سے بھاگ نکلا۔ مگر صبح سویرے ہی اپنے بیوی بچوں سمیت حاضر ہوکر مسلمان ہوگیا، کا ملہ بی بی نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔ پھر دُعائے خیر فرمائی اور وہ شخص بندگان خاصان خدا میں شامل ہوگیا۔ اسی رات بی بی صاحبہ کو غیب سے ندا آئی کہ ’’ عنقریب تیرے بطن سے ولی کامل پیدا ہوگا، وہ یگانہ روزگار فقیر ہوگا، وہ شیخ المشائخ اور فنافی اللہ فقیر ہوگا، یہ نعمت حق ہے جو ہماری بارگاہ میں پڑی کئی نعمتوں سے اعلیٰ و افضل ہے، وہی نعمت ہم تم کو عطاء کرتے ہیں، کیونکہ تم اس کا شکر ادا کرتی ہو‘‘۔ یہ سب سن کر آپؒ کی والد ہ محترم بہت مسرور ہوئیں اور اسی وقت سجدہ شکر بجا لائیں، بعد ازاں حضرت فرید الدین مسعود گنج شکرؒ تولد ہوئے، آپؒ نے ابتدائی تعلیم کھتواں میں پائی اٹھارہ سال کی عمر میں ملتان آئے اور مولانا منہاج الدین ترمذی سے فقہ پڑھی پھر واپس بغداد پہنچے، گنج شکرؒ کا نام آج بھی تاریخِ تصوف کی پیشانی پر تازہ تر اشیدہ جھو مر کی طرح چمک رہا ہے۔ آپؒ کا شجرہ مبارک نسبی حوالے سے حضرت عمر فاروق ؓ سے جا کر ملتا ہے ۔ اوائل عمری میں ہی آپؒ کے والد گرامی شیخ جمال الدینؒکا وصال ہوگیا تو آپ ؒ کی پرورش آپؒ کی والدہ ماجدہ نے جس ذمہ داری سے نبھائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سید احمد بخاریؒ جو علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے ان سے پانچ سال تعلیم پائی ، درس کے ساتھ ریاضت بھی ہوتی رہی ، مراتب بڑھتے چلے گئے ، غوث العالمین حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی ؒ کی دعوت پر جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے ملتان کا دورہ کیا تو یہاں آپ کی نگاہ حضرت بابا فریدؒ پر پڑی حضرت بابا فریدؒ اس مسجد میں درس و تدریس کے سلسلے میں قیام فرما تھے حضرت بختیار کاکیؒ کی نگاہِ ولایت سے یہ پوشیدہ نہ رہ سکا کہ یہ انسان وحیدِ عصر ہو گا، حضرت بابا صاحبؒ نے بھی عشق کی حدت کو اپنے سینے میں محسوس کیا اور حضرت بختیار کاکی ؒکی قدم بوسی کی اور آپ کے عقیدت مندوں کی صف میں کھڑے ہو گئے۔
اور حضرت قطب صاحب ؒ کے ساتھ دہلی جانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخِ طریقت نے ارشاد فرمایا کہ علم حاصل کرو اور تکمیلِ علم کے بعد میرے پاس آجانا حضرت بابا صاحبؒ نے سر تسلیمِ خم کر لیا۔ جب تمام علوم میں کامل ہو گئے اور فقہ و حدیث میں مہارت حاصل کرلی اور اخلاقِ حسنہ طبیعتِ ثانیہ بن گئی تو والدہ کی اجازت اور حکم سے اپنے شیخ طریقت کی بارگاہ میں دہلی تشریف لائے اور عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ مجاہدات کی منزل سے گزرنے لگے بحرِ طریقت و حقیقت میں غوطہ زن تھے کہ آفتابِ چشت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ دہلی تشریف لائے مخلوقِ خدا کا ہجوم آپؒ کی زیارت کو اُمڈ آیا، سلطان شمس الدین التمشؒ بھی حاضری سے مشرف ہوا، آستانہ بختیارؒ کے تمام خدام، عقیدت مند اور مریدین نے بھی اپنے حسبِ حال ، حسبِ ظرف اور حسبِ اہلیت فیض حاصل کیا اور نعمت سے مالا مال ہوئے۔ حضرت غریب نواز معین الدین چشتیؒ نے حضرت بختیار کاکیؒ سے دریافت فرمایا کہ کوئی شخص ملنے سے رہ تو نہیں گیا تو حضرت بختیار کاکیؒ اپنے شیخ کے لطیف اشارے کو سمجھ گئے اور فرمانے لگے، حضور ! ایک مرید فرید الدین محروم رہ گیا ہے وہ چلہ کش ہے غریب نواز نے فرمایا آئو، اس کو جا کر مل لیتے ہیں جب حجرہ پہنچے اور حضرت فریدالدین ؒ کی نظر غریب نواز پر پڑی تو اٹھنے کی کوشش کی مگر مجاہدوں اور ریاضتوں کی وجہ سے کمزوری غالب آچکی تھی، نہ اٹھ سکے اور قدموں میں سر رکھ دیا تو حضرت غریب نوازؒ نے حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ سے فرمایا کہ تم بائیں طرف کھڑے ہوجائو، میں دائیں طرف کھڑا ہوتا ہوں اور فرید کو درمیان میں کھڑا کر دو، جب حکم کی تعمیل ہو گئی تو آسمان کی طرف چہرے اور ہاتھ کو بلند فرما کر بارگاہِ الٰہی میں التجا کی کہ یا اللہ ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا، تو توقف کے بعد غیب سے ندا آئی، ہم نے فرید کو قبول کیا وہ وحیدِ عصر ہوگا، اس آواز کو سماعت فرمانے کے بعد حضرت غریب نوازؒ کے حکم پر حضرت بختیار کاکیؒ نے وہ اسمِ اعظم جو خواجگان چشت میں سینہ بہ سینہ چلا آرہا تھا، ودیعت فرمایا جس سے بابا صاحبؒ پر علمِ لدنی کا انکشاف ہوا حجابات اٹھ گئے تو غریب نوازؒ نے اپنا خرقہ مبارک بابا صاحبؒ کو عطا فرمایا اور حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ نے اپنی شال اور دستار عطا کرکے نور معرفت و حقیقت اور عشق کی اس سوغات کو دوآشتہ کر دیا۔ آپ نے قطب العارفین حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے دستِ مبارک پر بیعت فرمائی، مگر اپنے دادا مرشد سلطان الہند حضرت معین الدین چشتی حسن سنجری ؒ سے بھی اکتسابِ فیض فرمایا، آپؒ کو برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کا آدم ثانی کہا جا تا ہے۔ آپؒ دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت میں گزارتے اور رات گئے نور ولایت منور ہونے لگتا، تلاوت قرآن مجید کی آواز سے ظلمت کے اندھیرے چھٹنے لگتے، حجرہ میں کبھی سر بسجود رہتے تو کبھی اشکبار آنکھوں سے اپنے رب کی بارگاہ میں التجا گزار ہوتے اور کبھی سیماب کی سی تڑپ تو کبھی رقصِ بسمل، نمازِ فجر کی اذان کے ساتھ ہی حجرہ مبارک کا دروازہ کھلتا تو یوں لگتا کہ کسی نے فضاء میں عنبر و عود کی خوشبو بکھیر دی ہو، ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم سجائے یہ صاحب ِ عرفان حجرے سے متصل مسجد میں تشریف لاتے، نماز پڑھاتے تو یوں لگتا کہ اپنے رب سے ہم کلام ہیں، دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو ایسا لگتا جیسے کہ الفاظ ہاتھ باندھے آسمان کی طرف پرواز کر رہے ہیں، پاک وہند میں سلسلہ چشتیہ کو زیادہ فروغ آپ ہی کے توسط سے نصیب ہوا، بدرالدین، نظام الدین اولیائؒ، جمال الدین ہانسوی، نجیب اللہ متوکل، شیخ مجیب اللہ زری زر بخش، علی احمد صابر کلیری، شہاب الدین گنج علم اور علائو الدین موج دریا جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں جس کے غلاموں کی صف میں کھڑی ہوں اس ہستی کی عظمت کے کیا کہنے تونسہ شریف ہو ، پاک پتن شریف ہو، سیال شریف یاتمبرپورہ شریف ( پشاور) سب آپ ہی کا احسان اور فیضان ہے اسی رشک ِ آسمان کے حجرے میں آپؒ آرام فرما ہیں۔ سرور کونین حضورؐ کا ارشاد ہے’’ نماز مومن کی معراج ہے‘‘ حضرت بابا فرید ؒ کو بھی یہ معراج حاصل ہوئی اور اس شان سے کہ آخری سجدہ ادا کرنے کے بعد آپؒ کی آنکھوں نے کوئی دوسرا منظر نہیں دیکھا۔ حضرت نظام الدین اولیائؒ سے دریافت کیاگیا کہ وفات کے وقت حضرت بابا فریدؒ کی عمر مبارک کیا تھی ؟’’ پچانوے سال‘‘ حضرت نظام الدین اوالیاء ؒ نے اشکبا ر آنکھوں کے ساتھ فرمایا’’ انتقال کے وقت حضرت شیخ ؒ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری تھے’’ یا حی یا قیوم‘‘ حضرت بابا فریدؒ 666ھ میں دُنیا سے رخصت ہوئے۔ برصغیر کی مسلمہ علمی فکری و روحانی شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے آپؒ کے مزار قدس پر حاضری دی اور اکتساب ِ فیض کیا اور پھر فرمایا’’ مزار اقدس سے انوار و تجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے تمام بلادِ ہند مستفیض ہورہے ہیں ‘‘۔ حضرت بابا فریدؒ کی حیات دوام کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ جب امیر تیمور ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو سب سے پہلے اس نے آپ ؒ کے مزار مبارک پر حاضری دی۔ فاتح ایشیاء امیر تیمور کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ’’ لر زندئہ جہاں‘‘ تھا اور بڑے بڑے سلاطین اس کے نام سے خوف زدہ رہتے تھے۔ مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جب امیر تیمور حضرت بابا فریدؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپؒ کے جلال روحانی کے اثر سے کانپ رہا تھا۔ پھر اسی فاتح ایشیاء کی نسل میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر پیدا ہوا، ہر چند شیخ مبارک اور اس کے بیٹوں ابو الفضل اور فیضی نے اکبر کو خدا بنانے کی کوشش کی تھی مگر مغل شہنشاہ زندگی بھر بزرگانِ دین کے حلقہ اثر سے آزاد نہ ہوسکا، اس نے کئی بار حضرت بابا فریدؒ کے مزار مبارک پر حاضری دی اور اجودھن کا نام بدل کر پاک پتن رکھا، آج یہ شہر اسی عقیدت کی یادگار ہے۔ آپؒ کے مزار اقدس پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سونے کا دروازہ لگوایا اور پھر صدر جنرل ضیاء الحق نے یہاں جدید مسجد تعمیر کروائی۔ سجادہ نشین دیوان مودود مسعود چشتی فاروقی نے تقریبات کا آغاز کیا، عرس مبارک کا آغاز تلاوت قرآن پاک کے بعد ختم خواجگان سے کیا اور تقریباً 800سال سے جاری روایتی محفل سماع کا انعقاد کیا گیا، اس موقع پر سجادہ نشین دربار عالیہ دیوان مودودِ مسعود چشتی نے اپنے دست مبارک سے تبرکات تقسیم کئے اس موقع پر ملک اور بیرون ملک سے آئے مشائخ عظام اور زائرین کی بڑی تعداد مزار شریف کے احاطہ میں موجود تھی۔ عرس کی تقریبات کے موقع پر ملک کی تعمیر و ترقی و خوشحالی امن و امان اور کشمیریوں کے حق میں خصوصی دُعا کی گئی۔ عرس کی تقریبات10محرم تک جاری رہیں گی۔ آپ ؒ کا سالانہ عرس مبارک اپنی دیرینہ پاکیزہ روایات کو دامن میں سمیٹے 25ذوالحجہ سے شروع ہو کر 10محرم ا لحرام تک رہتا ہے،5محرم الحرام کیونکہ آپ کا یومِ وصال بھی ہے، اس لئے 5محرم کو آپ کے قدموں میں لگا بہشتی دروازہ موجودہ سجادہ نشین حضرت دیوان مودودِ مسعود چشتی اپنے برادر اصغر دیوان عظمت سید محمد چشتی و خاندان کے بزرگ حضرات اور لاکھوں عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں کھولتے ہیں۔ یہ مبارک تقریبات ہر سال ملک کے مختلف شہروں میں ہوتی ہیں پشاور میں پیر صاحب تمبر پورہ شریف رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق باباؒ کے صاحبزادے پیر سید عنایت شاہ باچا عرف موتیاں والی سرکار کے زیر سرپرستی ختم خواجگان ہو تا ہے شجرہ شریف، چشتیہ صابریہ پڑھا جا تا ہے اور محفل سماع میں عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ سید عنایت شاہ باچا خصوصی دعا فرماتے ہیں جس میں عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس جاتے ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button