ColumnImtiaz Aasi

حادثے کے بعد اقدامات کیوں؟

امتیاز عاصی
انسانی سمگلنگ آج کی بات نہیں یہ غیر قانونی دھندہ عشروں سے جاری ہے۔ یونان میں کشتی حادثے کے بعد41انسانی سمگلرز کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اور149مقدمات درج ہوئے ہیں۔ سوال ہے ایف آئی اے نے حادثے سے قبل یہ اقدامات کیوں نہیں کئے؟ کئی عشرے پہلے سنتے تھے گائوں کا کوئی آدمی یونان چلا گیا جہاں اسے بحری جہازوں پر ملازمت مل گئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بے روزگار نوجوانوں نے حصول روزگار کے لئے یونان کا رخ کر لیا۔ حقیقت تو یہ ہے اس وقت تک ہمیں بھی علم نہیں تھا یہ لوگ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے اس دور میں جو لوگ خواہ کسی طریقہ سے یونان گئے آج ان کا شمار علاقے کے امراء میں ہوتا ہے۔ دراصل دولت کی دوڑ نے انسان کو اندھا کر دیا ہے ، نوجوان نسل والدین کے کہنے میں نہیں لہٰذا وہ والدین کو بیرون بھجوانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ غریب والدین اپنی تھوڑی بہت اراضی اور مائیں زیوارت فروخت کرکے بچوں کو ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونان بھیجنے والے والدین اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں ان کا بیٹا جانے واپس آئے گا یا نہیں۔ انسانوں کی غیر قانونی سمگلنگ کرنے والے بے درد لوگ بعض اداروں کے اہل کاروں کی مبینہ ملی بھگت سے یہ سارا دھند کرتے ہیں ورنہ کسی کی کیا مجال وہ لوگوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر بھیجے۔ یونان میں کشتی ڈوبنے کے پیش آنے والے سانحہ نے ہر آنکھ اشکبار کر دی ہے، سوال ہے جب اس طرح کا کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں، انہیں معلوم نہیں کہاں کہاں اور کون کون لوگ انسانی سمگلنگ کا غیر قانونی دھندہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں یونانی کوسٹ گارڈ کے لوگ ڈوبنے والوں کے پکارنے کے باوجود تماشائی بنے رہے۔ کوسٹ گارڈ کے ملازمین تو سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لئے وہاں موجود تھے نہ کہ غیر قانونی طور پر کشتیوں سے آنے والوں کی حفاظت پر مامور تھے۔ اتنی اموات کے بعد ایف آئی اے نے مقدمات درج کر لئے ہیں۔ عام طور پر لوگ پولیس والوں کو مبینہ طور پر بہت کرپٹ تصور کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، وفاقی تحقیقاتی ادارے کے وہ ملازمین جو امیگریشن یا ایجنسی کے کسی بھی شعبے سے منسلک ہیں ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے تو انسان سوچوں میں گم ہو جائے۔ ایف آئی اے سے سبکدوش ہونے والے کئی ملازمین ٹی وی چینلوں کے مالکان بن چکے ہیں۔ درحقیقت اس تمام خرابی کی جڑ سیاسی حکومتیں ہیں۔ سیاست دان پولیس اور ایف آئی اے کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، کسی کو اس طرف دھیان نہیں ایف آئی اے والے کیا کر رہے ہیں۔ ایک حکومت کسی سیاست دان پر مقدمہ بناتی ہے دوسری حکومت کے آنے کے بعد وہی ملازمین جنہوں نے مقدمات کی تفتیش کی ہوتی ہے عدالتوں میں آکر بیانات دے دیتے ہیں ملزم کے خلاف ثبوت نہیں ہے۔ جس ملک میں کرپشن کرنے والوں کو ایسے چھوڑ دیا جائے ایسے ملک کبھی ترقی کر سکتے ہیں۔ ملک میں کتنی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہے ان کا کام صرف سیاست دانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا نہیں۔ اگر راتوں رات کسی سیاسی جماعت کے حصے بخرے کئے جاسکتے ہیں تو کرپشن میں ملوث ایف آئی اے کے ملازمین کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی؟ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لایا جائے تو عشروں تک انہیں جیلوں میں رکھا جا سکتا ہے، بدقسمتی ہے جن لوگوں نے یہ کام کرنا ہوتا ہے وہ بھاری رشوت کے عوض یہ غیر قانونی دھندہ کرنے والوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کی اکثریت کا تعلق آزاد کشمیر اور پنجاب کے گجرات اور منڈی بہائوالدین کے اضلاع سے ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ایف آئی اے جیسا ادارہ بنانے کا مقصد پولیس پر کام کے بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ اس طرح کے غیر قانونی دھندے کرنے والوں کا قلع قمع کرنا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ایف آئی اے کو سیاست دانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ کسی حکومت نے ایف آئی اے سے پوچھا ہے ایک مقدمہ بنانے کے بعد اسی مقدمہ کے ملزمان کو بے گناہ کس قانون کے تحت کر دیا دیا جاتا ہے؟ تعجب ہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمہ کے گواہان اللہ کو پیارے ہو گئے، فرد جرم لگنے نہیں دی گئی، تحقیقاتی ایجنسی نے عدالت میں بیان دیا ملزمان بے گناہ ہیں حالانکہ اصولی طور پر مقدمہ کا ٹرائل ضروری تھا، عدالت مقدمہ کی سماعت کے بعد انہیں بریت دے دیتی تو یہ بات ان کے اپنے حق میں بہتر تھی لیکن ایف آئی اے نے نوکری پکی کرنے کی خاطر ملزمان کو سرے سے بے گناہ قرار دے دیا۔ اب سوال یہ ہے اس مقدمہ کی تفتیش پر لاکھوں نہیں کئی کروڑ روپے خرچ ہوئے ہوں گے جو افسران انکوائری کے لئے بیرون ملک بھیجے گئے ہوں گے ان پر اٹھائے گئے اخراجات کا کون ذمہ دار ہے؟ یونان میں پیش آنے والے سانحہ کے بعد ضروری ہو گیا ہے حکومت لوگوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر بھیجنے والوں کے خلاف مقدمات کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں چلائے جیسا کہ نو مئی کے واقعہ میں ملوث لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے بالکل اسی طرح انسانی سمگلنگ کے غیرقانونی دھندے میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دینے کے لئے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں۔ جہاں تک قانونی طور پر اوور سیز بھیجنے کا معاملہ ہے پروموٹروں پر نگرانی کے لئے بیورو آف امیگریشن کا ادارہ موجود ہے گو یہ ادارہ بھی کرپشن میں آلودہ ہے کم از کم لوگوں کو قانونی طورپر بیرون ملک تو بھیجا جاتا ہے۔ افسوناک پہلو یہ ہے سانحہ یونان جیسے واقعات کے کچھ عرصہ بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے جیسے اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا نہیں تھا۔ موجودہ حکومت کو انسانوں کی غیرقانونی سمگلنگ میں ملوث لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کے لئے کوئی قانون نہیں تو آرڈیننس لانا چاہیے تاکہ انسانی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں ہوں۔

جواب دیں

Back to top button