استحکام پاکستان پارٹی کے ملکی سیاست پر اثرات

یاور عباس
ایک صحافی دوست کالم نگار سید اشفاق حیدر نے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کی پت جھڑ کے موسم کی طرح روز درجنوں کے حساب سے پارٹی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی کنارہ کشی کرنے کا اعلان کرنے کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے موقع پر تبصرہ کرتے ہوئے مختصر تحریر بھیجی جس میں انہوںنے کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے ایک اور سیاسی پارٹی کا قیام، پاکستان میں ایک اور تجربہ، کیا پاکستان ایسی مزید لوٹا پارٹیوں کے تجربات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیا تحریک انصاف کا ووٹر عمران مخالف ووٹ دے گا، مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان سے مخلص لوگ اب ان لوٹوں کا بوجھ اپنے کندھوں پے مزید اٹھائیں گے اور اگر واقعی میں لوگ تبدیلی چاہتے ہیں تو اس مرتبہ لوٹوں کو ان کی اوقات دکھا دیں نہیں تو نظام کو الزام مت دیں۔ یہ چند لوگ بلیک میلر ٹولہ ہیں جنہوں نے ملکی سیاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ملک کی سالمیت کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے اندر رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کریں، پارٹی فیصلوں سے اختلاف کریں، یہی جمہوریت کا حسن ہے، یہ کہاں کی جمہوریت، آج اس پارٹی کی ثناء تو کل دوسری کی قصیدہ گوئی، ایسے لوگوں کو سیاستدان کہنے والے اور انہیں ووٹ دینے والے کبھی کبھی اپنی دماغی حالت کا چیک اپ ضرور کرائیں۔ ایک مفت مشورہ تحریک انصاف کے ووٹر کے لیے، جس طرح گلی گلی، شہر شہر، نگر نگر میں مخالفین کا چور چور کہہ کر پیچھا کیا ہے، اب تحریک انصاف کے لوٹوں کا بھی لوٹے لیکر پیچھا کریں، امید ہے انہیں افاقہ ہوگا۔ آخری دو باتیں تجربہ گاہوں میں تجربہ کرنے والے ڈاکٹروں سے گزارش ہے کوئی اچھی سی پراڈکٹ ایجاد کریں جو دیر پا ثابت ہو، حکومتی اتحاد کے لیے استحکام پاکستان پارٹی کا قیام تجربہ گاہ کے ڈاکٹروں کا آپ پر عدم اعتماد ہے، حالات حاضرہ پر بہت اچھا تبصرہ اور حقائق پر مبنی تجزیہ ہے ، سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کے لیے شعوری پیغام ہے کہ وہ سیاست کے رموز و اوقاف سیکھیں اور آنکھیں بند کر کے اقتدار کے لالچ میں مفاد پرستوں کو ویلکم کہنے کی بجائے ان کے ماضی کو بھی پرکھ لیا کریں ۔ جنہیں ہم الیکٹ ایبلز کہتے ہیں جن کے دم سے حکومتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں انہی سیاستدانوں کے بارے ہمارے ایک بزرگ لکھاری اور آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ افسر عزیز احمد نے اپنے ایک کالم میں پنجابی اکھان لکھی تھی کہ ’’ جتھے ویکھاں توا پرات ، اوتھے نچاں ساری رات‘‘۔ فی الحال استحکام پاکستان پارٹی کے نظریہ اور منشور کا اعلان تو ہوا ہی نہیں اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں فلاں شخص نظریاتی کارکن ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کی تشکیل سے سیاسی حلقوں میں اگرچہ کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہورہی بلکہ پارٹی شروع ہونے سے پہلے ہی تنقید کا سامنا کر رہی ہے اور بے شمار سوالات ایسے کھڑے ہوگئے ہیں جن کا جواب نئی پارٹی کے قائد جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں کے پاس نہیں ہے ۔ اگرچہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے22سالہ جدوجہد کر کے جتنے لوگ اکٹھے کئے جہانگیر ترین نے22گھنٹوں میں اکٹھے کر لیے ہیں۔ بہت سارے سیاسی پنڈتوں کا دعویٰ ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کا مستقبل ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنے والے لیڈران کی مصطفی کمال کی قیادت میں بنائی جانے والی پارٹی پاک سرزمین سے بھی برا ہوگا۔ جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو ایم این اے نے نئی پارٹی کی تشکیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی میں لیڈر تو آگئے ہیں، بس ووٹروں کی کمی ہے۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں موجود دیگر جماعتوں کے قائدین پی ٹی آئی چھوڑنے والے سیاستدانوں پر ماضی میں کیا الزامات لگاتے رہے اور آج کل ان کے اس عمل پر انہیں شاباش دے رہے ہیں اور ان سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کو پیٹھ میں خنجر گھونپ کر مشکل وقت میں عمران خاں کی کشتی کو منجدھار میں چھوڑ کر جانے والے بذات خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو چوروں، ڈاکوئوں، بدمعاشوں کی جماعت قرار دیتے رہے اور ان کے قائدین پر نہ جانے کیا کیا الزامات لگاتے رہے، آج جب وہ منہ چھپائے استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو ہی گئے ہیں تو مسلم لیگ ن نے اس جماعت کو اپنی بی ٹیم قرار دے دیا ہے۔ جہانگیر ترین نے بھی اچھی تعلقات کا اعلان کر دیا ہے مگر سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ عوام نے عمران خاں کا ساتھ چھوڑنے والے تمام لیڈروں کو کس مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے کہ آج ان کی عوامی مقبولیت صفر ہوگئی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر ان کی پریس کانفرنس ہو یا کوئی تصویر شیئر ہو نیچے کمنٹس باکس میں عوامی رائے بغور چیک کریں آپ کو اندازہ ہوجائے گا اس پارٹی کو عوام میں کتنی پذیرائی مل سکتی ہے۔2023ء الیکشن کا سال بھی ہے اور یہ زمانہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لوگوں میں شعور بیدار ہوچکا ہے، اب آپ کسی گائوں میں چلے جائیں وہاں بھٹہ پر کام کرنے والے کے ساتھ بھی سیاسی گفتگو کر کے دیکھ لیں وہ ملکی سیاست پر یوں تبصرہ کرے گا جیسے وہ کوئی دو چار دفعہ ممبر پارلیمنٹ رہ چکا ہو۔ 14جماعتی حکمران اتحاد پوری ریاستی طاقت کے باوجود الیکشن سے گھبرا رہے ہیں تو پھر یہ اس بات کا اعلان ہے کہ شاید اب عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا نہیں جاسکے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کو نفع یا نقصان شاید پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں سے کسی کو بھی نہ ہو بلکہ یہ الیکٹ ایبلز کی سیاست دفن ہونے جارہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ صرف نظریاتی کارکنوں کو آگے لائیں۔ جمہوری روایات کو فروغ دیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر عوامی طاقت سے پارلیمنٹ میں جائیں۔