ColumnJabaar Ch

مبارک ہو!

جبار چودھری
حقیت دردناک کہ بیان کریں توکلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن یہاں ہر بار جب بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتاہے تو وزیرخزانہ کوئی بھی ہو،حفیظ شیخ ہوں،شوکت ترین ہوں،مفتاح اسماعیل ہوں یا اسحاق ڈار ،سب کے سب معاہدے کے وقت کے بیانات پڑھ لیکن الحمدللہ سے شروع ہوکر خوشخبری پر ختم ہوں گے کہ معرکہ سر کرلیا گیا ہے ۔ناممکن کو ممکن بنالیا گیا ہے۔مبارکباد والی بات یہ ہے کہ ہم چوبیسویں مرتبہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن اپنی اصلاح نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔ہمارا ملک اسلامی،تعلمات اسلامی،قوانین اسلامی پھر بھی ہم ایک سوراخ سے چوبیسویں بار خودکوخوشی خوشی ڈسوانے جارہے ہیں حالانکہ ہمارے نبی اکرم ٔ فرماتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا ۔یہیں سے اپنے مومن ہونے کا اندازہ لگالیں ۔مزے کی بات یہ نہیں کہ ہم چوبیس بار آئی ایم ایف کی منت سماجت اور جھوٹے وعدے کرکے توڑچکے ۔اپنے ملک کا وقار مٹی میں ملاچکے بلکہ پریشانی اور پشیمانی کی بات یہ ہے کہ ہم اس بار بھی کچھ ایسا نہیں کریں گے کہ اس کام سے جان چھڑالیں۔دوسرے ملک بھی تو ہیں وہ کیسے کرلیتے ہیں کہ ہمارا دشمن ہمسایہ نوے کی دہائی میں کنگال ہوگیا باقاعدہ کنگال۔وہ ایک بار آئی ایم ایف کے پاس گیا چند کروڑ ڈالرلیے لیکن پھر کبھی اس طرف منہ نہیں کیا۔کیا کیا؟ کیسے کیا؟ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ۔کتابیں موجود ۔آج ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ۔تیسری بننے جارہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر کے ڈھیرپر بیٹھا ہے۔ایک ہم ہیں چوبیس بار آئی ایم ایف سے قرضہ لے چکے لیکن آج بھی ڈالر ڈالر کے محتاج ؟۔آئی ایم ایف کا چوبیسواں پروگرام ۔نو ماہ کے مختصر عرصے میں تین ارب مشروط ڈالر۔ہمیں یہ شرائط بہت بری لگتی ہیں ،ممکن ہیں کچھ بری بھی ہوں لیکن ان شرائط کا مرکزی نقطہ کیا ہوتا ہے؟ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ اب قرضہ لے جائو۔ جاکر اپنے ملک کا معاشی نظام ٹھیک کرو۔خود کے ڈالر کمائو اور آئندہ ہمارے پاس نہ آنا۔ہم کیا کرتے ہیں ۔ہم سب شرائط مان لیتے ہیں کیونکہ جب بھی جاتے ہیں ملک دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ان شرائط سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھتی ہے کیونکہ اب آئی ایم ایف ہماری برآمدات تو بڑھانے سے رہا۔ترسیلات زر کی بھی ایک حد ہی ہوسکتی ہے لیکن ملک چلانے اور قرضے واپس کرنے کے لیے پیسے تو درکار ہیں ۔درکار ہی رہیں گے ۔خرچوں اور آمدن میں فرق کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف ہمیں سختی کرنے کا کہتا ہے۔ہم آمدن میں ایسی سختی کرتے ہیں کہ برآمدات مزید کم ہوجاتی ہیں جو جب تک نہیں بڑھیں گی ہم اپنی زندگی تنگ کرتے جائیں گے اور بات دیوالیہ سے بھی کہیں آگے جاکر رکے گی ( نعوذباللہ) آئی ایم ایف جو خرچے کم کرنے میں سختی کا کہتا ہے لیکن یہاں ہم سختی کی بجائے سخاوت پراترے رہتے ہیں۔اور سخاوت بھی ایسی کہ کابینہ کا حجم تاریخ کا زخیم ترین۔پچھلے سال سرکار چلانے کا خرچہ سوا پانچ سو ارب تھا اس بجٹ میں وہ خرچہ بڑھ کرسوا سات سو ارب ہوچکا۔ایک سال میں دوسو ارب کا اضافہ ۔آئی ایم ایف نے ہاتھ کھینچا تو بجٹ پاس ہونے سے چند لمحے پہلے انتہائی مجبوری کے عالم میں ان اخراجات میں پچانوے ارب روپے کم کرنے کا پیغام دیا ہے یہ خرچہ واقعی سال کے آخرتک کم ہوگا اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ نو ماہ بعد آئی ایم ایف کا معاہدہ ختم ہوجائے گا اس کے بعد توکون اور میں کون ۔کمی کا تو پتہ نہیں البتہ ضمنی گرانٹس کی صورت میں اضافے کے لیے ہر دم تیار۔عجب بات نہیں ہے کہ ستائیس کلومیٹر پر وفاق کی حکومت ہے اورسال کا خرچہ سات سوارب روپے؟حکومت اپنی منجی تھلے ڈانگ کب پھیرے گی؟ہمارے ہاں حکومتوں نے اپنی نااہلیاں چھپانے کے لیے آئی ایم ایف کو ایک ظالم قصائی کے روپ میں پیش کیا۔ میں اس ادارے کا دفاع نہیں کررہا لیکن وہ ہمیں خود تو آنے کی دعوت نہیں دیتا نا۔ ہم خود اپنے مرض کی دوا لینے جاتے ہیں اب یہ تو اس کی مرضی ہے کہ کتنی کڑوی گولی ہمیں دیتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم وہ کڑوی گولی کا ذائقہ عوام کو چکھادیتے ہیں فوری لیکن حکمران اس کڑوی گولی کو کھانے کی بجائے آنکھ بچاکر کوڑے میں پھینک دیتے ہیں اور شکایت بھی کرتے ہیں کہ مرض ٹھیک نہیں ہوا۔مرض ہم نے پرہیز سے ٹھیک کرنا ہے اور پرہیز یہ ہے کہ آمدن بڑھانی ہے خرچے کم کرنے ہیں۔قرض سے جتنا ممکن ہوسکے گریز کرناہے۔ہم الحمدللہ ان تمام چیزوں کے الٹ کرتے ہیں اور سینہ ٹھوک کے کرتے ہیں گویا خود کوتباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط نے بجٹ کا حلیہ بگاڑکررکھ دیا ہے۔اسحاق ڈار کا قومی اسمبلی میں پیش کیا بجٹ الگ ہے اور منظورکیا گیا بجٹ بالکل ہی الگ۔آئی ایم ایف کے چوبیس کے چوبیس معاہدے اٹھاکردیکھ لیں ہر معاہدے میں آپ کو قرض کی یہ شرط ضرور ملے گی کہ بیمارادارے نجکاری کے عمل سے فروخت کردیے جائیں گے ۔حکومت اپنے پاس ایسے اداروں کو نہیں رکھے گی۔حکومت پی آئی اے ،ریلوے،اسٹیل ملز نہیں چلائے گی۔کیا ہم نے یہ ادارے بیچ دئیے؟ نہیں بیچے ہمیں تو آئی ایم ایف کا احسان مند ہونا چاہئے کہ ہم نے کبھی کوئی شرط پوری نہیں کی اور وہ پھر ہم کو قرض دینے پرراضی ہوجاتا ہے۔ہم یہ نجکاری کیوں نہیں کرتے؟یہاں ہماری معیشت پرسیاست غالب آجاتی ہے۔معیشت کہتی ہے کہ پی آئی اے کو بیچ کر نقصان سے جان چھڑائی جائے۔اسٹیل مل جیسے سفید ہاتھی سے پلہ جھاڑ لیاجائے لیکن سیاست کہتی ہے کہ اگر یہ ادارے حکومت کے پاس نہ رہے تو ہم اپنے ووٹرزکو نوکریاں کہاں دیں گے؟ ہم اپنے سپورٹرزکو کہاں کھپائیں گے؟اور پھر پی آئی اے نہیںہوگی تو ہم مفت سفر کس جہازپر کریں گے؟ کونسی ایئرلائن ہمارے انتطار میں اپنی فلائٹ لیٹ کرے گی؟کونسی ایئرلائن جگہ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیں اورہماری فیملی کو آخری وقت میں ایڈجسٹ کرکے لے جائے گی چاہے اس کے لیے عام مسافروں کے ٹکٹ منسوخ کرکے انہیں ذلیل ہی نہ کرنا پڑے؟کیا شاندا ر ادارہ ہم نے بنارکھا ہے ۔پی آئی اے کے پاس کل انتیس جہاز ہیں اوراس ادارے سے تنخواہ لینے والے ہزاروں ملازمین۔ سٹل ملز کاحال اس سے بھی برا کہ وہ چلتی بھی نہیں ۔پیداوار بھی نہیں۔ بند پڑی ہے لیکن اسٹاف تنخواہیں اور رمراعات لیے جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹیکس زیادہ سے زیادہ لیں۔اب ہمارا ایف بی آر بھی تو ہماراہی ہے نا۔وہاں بھی ایسے ہی لوگ ایسا ہی سسٹم۔اور سیاست الگ۔مجھے یاد ہے عمران خان صاحب شبرزیدی کو ایف بی آر کے سربراہ کے طورپرلائے تھے۔شبر زیدی نے پچاس ہزار کی خریداری پرشناختی کارڈ کے اندراج کی شرط رکھنے کی کوشش کی ۔پوری تاجربرادری نے باقاعدہ ات اٹھادی تھی۔عمران خان جیسے وزیراعظم نے اپنے دوست شبر زیدی کی قربانی دیدی لیکن سیاسی سرمائے توقائم رکھا۔پھر چھوٹے دکانداروں پر تین ہزار ماہانہ فکس ٹیکس کسے یاد نہیں ۔یہ کام وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کیا تھا تو ان کی اپنی پارٹی کی چیف آرگنائزرمریم نوازکی ٹویٹ آگئی تھی کہ مفتاح بھائی اس کو چھوڑدیں۔پھر مفتاح کی قربانی کردی گئی۔آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑا کریں۔ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس نیٹ میں لائیں۔لوگ دینے والے زیادہ ہوں گے تو ٹیکس ریٹ کم ہوگا۔ہر کسی کے حصے میں کم پیسے آئیں گے۔سب کے لیے آسانی بھی ہوگی ،پیسہ بھی زیادہ جمع ہوگا۔ٹیکس کی چوری کم ہوگی لیکن ہم آج تک چوبیس کروڑکی آبادی میں سے صرف چوبیس لاکھ ہی تلاش کرپائے ہیں جوسارا ٹیکس دیتے ہیں۔ایسے میں آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پیسہ تو جمع کرنا ہے تو بتائوکیسے کروگے ؟ہمارے حکمرانوں کے پاس ایک ہی فارمولہ رہ جاتا ہے کہ پٹرول پر لیوی بڑھادیں گے۔اس وقت پچپن روپے فی لٹرہے۔سوچیں ہم اگر نارمل معیشت ہوتے تو آج پٹرول دو سوروپے سے بھی کم ہوتا لیکن اس ایک لٹرمیں سے ہم حکومت کو ساٹھ روپے فوری اداکرنے پر مجبور ہیں ۔اب دولاکھ سے زیادہ ماہانہ کمانے والوں پرٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیا گیا ہے۔تین لاکھ سے زیادہ کمانے والے روٹین ٹیکس کے علاوہ فکس ٹیکس بطورجرمانہ دیں گے کہ اتنے زیادہ پیسے کیوں کمائے ہیں۔ اب یہ بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ کس پارٹی کی حکومت کتنی بار آئی ایم ایف کے پاس گئی،پیپلزپارٹی دس بار گئی۔ن لیگ پانچ بار گئی ۔مشر ف اور ضیا دور میں کتنی بار جانا ہوا یا پی ٹی آئی ایک بار گئی ۔سوال یہ ہے کہ جوشرائط مان کرقرضہ لاتے ہیں وہ پوری کرنے کی طرف کب جائیں گے۔معاشی اصلاحات کب کریں گے۔سیاست بچاتے بچاتے کب تک معیشت برباد کرتے رہیں گے ۔کب معیشت کوسیاست سے آزاد کریں گے۔کب اپنے ووٹر،سرکاری نوکریوں اور شوبازی کی سیاست سے باہر نکل کر سیاسی سرمائے کی پرواکیے بغیر قومی سرمائے کوترجیح دیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button