ColumnTajamul Hussain Hashmi

سماجی منافقت

تجمل حسین ہاشمی
صدارت سنبھالنے سے پہلے صدر ایوب کی دلچسپی اخبار میں سٹاک ایکسچینج والا صفہ ہوا کرتی تھی، صدر ایوب خان کے ذہن میں یہ بات پتھر کی لکیر کی طرح جمی ہوئی تھی کہ ہمارے معاشرے میں چھپے ہوئے حرف کی بے انتہا قدر و قیمت ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ بڑے سے بڑے جھوٹ کو پرنٹنگ پریس کی مشین سے گزار کر کاغذ پر پھیلا دیا جائے تو کئی لوگوں کی نظر میں وہ قابل قبول اور قابل اعتبار بن جاتا ہے، اس لیے وہ مذاق سے پرنٹنگ پریس کو ذہنی جنگ کا اسلحہ خانہ کہا کرتے تھے۔ صدر ایوب خان نے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا، اسی دور میں پاکستان میں انقلابی فیصلے کئے گئے، بڑے بڑے منصوبوں کی بنیاد رکھی موجودہ حالات میں بھی حکومت میڈیا سے تنگ ہے اور 75سال پہلے بھی جمہوری اور آمر حکومتیں پرنٹ میڈیا سے تنگ تھیں اور اب سوشل میڈیا سے بھی تنگ ہیں، معلومات کی فراوانی سے سچ اور جھوٹ کا فرق ختم ہو گیا ہے، تحریک انصاف نے حکومت میں آ کر الیکٹرانک میڈیا کو بھی سائیڈ لائن کیا اور یو ٹیوبرز کو پرموٹ کیا، میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سب ایک پلاننگ کا حصہ تھا۔ پرنٹ میڈیا تو انتہائی کمزور حد تک پہنچایا گیا، وابستہ افراد کے گھروں میں مشکلات بڑھ گئیں۔ سوشل میڈیا میں جس کے مطلب کی بات ہو وہ اسی کو سچ تصور کر لیتا ہے، سوشل میڈیا انسانی سوچوں کو سڑک پر لے آیا ہے، جس سے دنیا کی حقیقتیں بھی آشکار ہوئی ہیں اور کمزور معاشی ممالک، سماجی فرق رکھنے والے ممالک کو مزید خطرات کا سامنا رہے گا۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں تو 65فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے، جو اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہے، اپنے اپنے مقاصد بنا لئے ہیں، مقاصد کے حصول میں ایسی آڈیو و ویڈیو کو استعمال کیا گیا جو ماضی میں نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا سی لوگوں کی دہلیز بھی محفوظ نہیں رہیں، آئین پاکستان حقوق کے تحفظ کو بات کرتا ہے۔ ایک جماعت اور کچھ تعلیم یافتہ سوشل میڈیا کو شعور سمجھ بیٹھے ہیں۔ معلومات کو شعور سمجھ کر اپنا نقصان کر بیٹھے ہیں اور اب خود کو مظلوم کہتے ہیں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کے بیانیوں کی بھر مار ہے لیکن یہ سب کچھ ایسے ہے جیسے زخم پر پٹی باندھ کر یہ سمجھ بیٹھیں کہ درد نہیں ہو گا، درحقیقت ترقی کا تعلق سیاسی نعروں، بیانوں سے نہیں ہوتا۔ فطری اصولوں کو مدے نظر رکھے ہوئے فیصلے کامیابیوں سے ہمکنار کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر پلاننگ احسن اقبال کے 5Es پر کالم لکھا ، کیوں اس دفعہ بجٹ پاکستان کی فطرت کے مطابق بنایا گیا ہے لیکن چند ایک پراجیکٹ کی رقم کو انڈسٹری اور روزگار کے لیے مختص کرتے تو بہتر ہوتا۔ لوگ اپنے روزگار کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ سارا دن لائنوں میں کھڑے معاشی غلامی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر 5Esکو سیاسی نظر نہ لگی تو یقینا معاشی صورتحال بہتر ہو گی، فیصلہ سازی حکومت وقت کی ہوتی ہے اور آئین پاکستان کے مطابق ادارے اس فیصلہ سازی کی عمل داری میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں نے ایسی سوچ کو مارکیٹ کیا ہے کہ سارے فیصلے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے، حکومت کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تو ایک سوچ، بیانیہ ہے جس کو سیاسی جماعتوں نے پرموٹ کیا ہے۔ جس سیاسی جماعت کی حکومت مدت سے پہلے ختم ہوئی اس جماعت نے سازش اور بیانیہ کو مارکیٹ کیا۔ اگر حکومتیں عوامی پراجیکٹ کے منشور پر چلیں یا اپنی جماعت کے لکھے ہوئے منشور پر چلیں تو یہ سب آسان ہو گا۔ سول ادارے کیسے کمزور ہو رہے ؟ ملک میں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں کام کرتا ہے، اداروں کی آئینی حدود مقرر ہے اور ان اختیارات کو کون غلط استعمال کرتا ہے، اتنی سوچ سمجھ لوگوں کو ہونی چاہئے۔ ملک میں سماجی منافقت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ہم خود لائن میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے اور چاہتے ہیں کہ وقت کا منسٹر لائن میں کھڑا ہو۔ یقینا انہی رویوں سے نظام کھوکھلا ہوا ہے، ایکٹر شکیل کو ڈیفنس کے قبرستان میں دفن کیا گیا، قبرستان میں صفائی، روڈ اور قبروں کی ترتیب کا طریقہ کار نظر آیا، دوسری طرف ماڈل کالونی قبرستان، جہاں پر نظام تو کیا قبر بھی سلامت نہیں رہتی، میں اپنی والدہ کی قبر پر گیا تو برابر میں نئی قبر بن چکی تھی۔ قبر کے ورثہ اور انتظامیہ نے کوئی تین فٹ اونچی دیواریں کھڑی کر دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں بہت حیران ہوا اور دعا مانگ کر گھر واپس آ گیا۔ جہاں یہاں تک سماجی سوچ میں فرق پیدا ہو چکا ہو وہاں ترقی کا چراغ بہت مدھم ہوتا ہے، وہاں سے لوگوں شفٹ ہونا چاہیں گے۔ ہمارے طاقتور لوگ دوسرے ممالک میں جا کر قانون کی پاسداری کو یقینی بناتے ہیں اور اپنے ملک کی سر زمین پر قانون کی کوئی پروا نہیں کرتے تو پھر قومیں ترقی نہیں کرتیں، سینئر صحافی حامد میر کو ایک انٹرویو میں جناب انور مقصود نے کہا کہ میں نے زندگی کے 60سال ٹی وی پر لوگوں کو خوش کرنے میں ضائع کئے، جوان نسل کے لیے کچھ نہیں کیا جس کا ملال ہے، مجھے بچوں کو پڑھانا چاہے تھا۔ قاسم کے پاپا نے نوجوانوں کو مخاطب کیا ، اس سے پہلے کسی سیاست دان نے نہیں سوچا۔ نوجوانوں ، تعلیم یافتہ افراد کو مدینہ کی ریاست محسوس کروائی، مدینے کی ریاست کا تصور دیا، تبدیلی کو شعور کا نام دیا لیکن افسوس وہ تعلیمی اور شعوری افراد ملکی املاک ، حساس اداروں پر چڑھ دوڑے ، پاکستان کا حصول لاکھوں قربانیوں کا صدقہ ہے۔ قوم ایسے شر پسند عناصر کو سپورٹ نہیں کرتی۔ قوم ان عناصر کے خلاف بھی کارروائی چاہتی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر سرکاری اثاثوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ حساس مقامات کے املاک کی توڑ پھوڑ شعور نہیں یہ کم عقلی تھی، کسی کے مقاصد کا حصول لگتا تھا، سماجی فرق میں اضافہ ملک کو کمزور کر رہا ہے، حقیقت میں اس کمزوری کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی معاشرتی بحالی نظر آئے گی ، ایمان ، اتحاد ، تنظیم مضبوط ہو تو 3ارب ڈالر قرضہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button