Columnمحمد مبشر انوار

عروج و زوال کی داستان

عروج و زوال کی داستان

محمد مبشر انوار(ریاض)
اہل پاکستان اور امت مسلمہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عیدالاضحیٰ کی مبارک باد، اس دعا اور امید کے ساتھ کہ اہل اسلام عید الا ضحی کے حقیقی پیغام پر عمل پیرا ہو سکیں، اس کی روح کو سمجھتے ہوئے، احکام الہیٰ کی رضا میں اپنی عزیز ترین متاع کو بخوشی قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ مزید برآں! احکامات الہیٰ کی تابعداری کرنے میں کسی بھی تامل کا شکار ہونے کی بجائے، یہ پختہ یقین اور عزم اپنے دل و دماغ میں راسخ کر لیں کہ ان احکامات کی بجا آوری میں ہی ان کی نجات ہے، ان کے لئے دنیا و آخرت میں بہتری ہے، راحت ہے مگر افسوس کہ رب کریم نے جس امتحان/آزمائش کے لئے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے، اولاد آدم اس مقصد سے دور جبکہ نفس کی غلامی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ رب کریم نے تو بنی آدم کو کرہ ارض پر اس اعتماد کے ساتھ بھیجا ہے کہ جو عنایات رب کریم نے اپنی مخلوق کو عطا کی ہیں، ان کی موجودگی اور حصول پر بنی نوع انسان بالخصوص، رب کریم کے احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے، اس کی بندگی کرے گی، لیکن چونکہ رب کریم کو اطاعت و بندگی کے لئے چنداں حضرت انسان کی ضرورت قطعی نہیں تھی، لیکن حضرت انسان کو عقل سلیم عطا کرے، بھلے برے کی تمیز سکھا کر، عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دئیے گئے اختیار کے مطابق فیصلہ کرنا اور رب کی بندگی کرنے میں، جو خوشی رب کریم کو محسوس ہوتی، اس کا احساس قطعی مختلف ہے۔ عقل سلیم کی موجودگی، دنیاوی خرافات، نفس کے ساتھ جہاد کرتے ہوءے ابلیس لعین کو قدم قدم شکست دیتے ہوئے احکامات الٰہی میں زندگی گزارتے، اس فانی دنیا سے کامیاب جانے کا امتحان ہی درحقیقت بنی آدم کو درپیش ہے، جس سے وہ نبرد آزما ہے لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میں بنی آدم، دنیاوی خرافات کا شکار ہو کر احکامات الٰہی سے غافل ہے وگرنہ آج کے روز بھی نمود و نمائش کی بجائے اس گفتگو کو ضرور مد نظر رکھتا۔ تاہم اسی کرہ ارض پر اللہ کے وہ نیک بندے ابھی بھی موجود ہیں، جنہیں دنیاوی آسائش، عیش و عشرت اپنی طرف کھینچنے اور راغب کرنے میں ناکام ہے اور وہ اپنے رب کی بندگی بعینہ ویسے ہی کر رہے ہیں، جیسی توقع رب کریم اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے سوچا کہ دیار غیر میں رہنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں کو عید کی مبارک دیتا چلوں کہ دیار غیر میں عید کی خوشیاں تو ہیں لیکن وہ ماحول میسر نہیں کہ جس میں ہم نے اپنا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی گزاری ہے۔
موضوع کی طرف آتا ہوں کہ چند ماہ بعد پوری دنیا کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہونے کو ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ منعقد ہونے کو ہے لیکن ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا، یا یوں سمجھیں کہ اس سے پہلے کبھی اس طرف نظر گئی ہی نہیں کہ کرکٹ ورلڈ کپ میں شامل ٹیمیں، کس طرح ورلڈ کپ کھیلنے کی اہل ہوتی ہیں۔ ہمیں تو بس یہ پتہ ہوتا تھا کہ ورلڈ کپ آ رہا ہے اور وہی نامور آٹھ ٹیمیں اس کا حصہ ہونگی اور انہی آٹھ میں سے کوئی ایک ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بن کر ابھرے گی، کانٹے کے مقابلے ہوں گے اور کھیل کا حسن دیکھنے کو ملے گا۔ ایک عرصہ تک یہ ہوتا بھی رہا لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ شرفا کے اس کھیل میں بھی ایک لچے؍ لفنگے نے اس کا حسن خراب کرنے کے لئے اپنی معاشی طاقت کا مبینہ استعمال کیا ہے اور کھیل کے قواعد و ضوابط کو اپنی فتح کے لئے روندا ہے۔ بالخصوص پاکستان کرکٹ کو خراب کرنے کے ہر صورت کوشش کی ہے، پاکستان میں کرکٹ کے میچ نہ کروانے کے لئے کیا کیا جتن کئے ہیں، اس سے ساری دنیا اب واقف ہو چکی ہے، پاکستانی کھلاڑیوں کو کس طرح غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث کیا گیا ہے، یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا، اس کے باوجود کہ پاکستان میں کھیل کے میدان سونے کئے گئے، پاکستان میں کرکٹ کا بخار کبھی کم نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے نامی گرامی کھلاڑیوں کے نعم البدل کے طور پر ہمیشہ کھیپ تیار ملی ہے اور ہر نئے آنے والے کھلاڑی نے اپنے آپ کو ثابت کیا ہے، اپنے پیشروئوں کے بلند کئے ہوئے علم کا مضبوطی سے تھامے رکھا ہے اور کسی نہ کسی طرح سے اس کو مزید بلند کرنے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ چند سال پہلے تک لاعلمی کے باعث یوں محسوس ہوتا تھا کہ بس کرکٹ کے میدانوں میں یہی آٹھ ٹیمیں ہی موجود ہیں جبکہ باقی دنیا کے ممالک اس کھیل کو پسند نہیں کرتے یا وہاں یہ کھیل کھیلا نہیں جاتا، پس پردہ ہٹلر کا قول بھی کہیں ذہن میں تھا اور گمراہ کرتا تھا۔ تاہم گزشتہ چند سال میں نئی ٹیموں کی ورلڈ کپ میں شرکت سے احساس ہوا کہ ایسا نہیں لہذا تحقیق کی تو پتہ چلا کہ آئی سی سی کے اصول و ضوابط کے مطابق مسلسل ہونے والے مختلف ٹورنامنٹس میں کارکردگی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سی آٹھ ٹیمیں براہ راست ورلڈ کپ میں شرکت کرنے کی اہل ہیں اور کون سی ٹیموں کو ورلڈ کپ کے لئے اپنی اہلیت ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔
کھیل کا فارمیٹ ایسا ہے کہ اس میں زیادہ ٹیموں کو شامل کرنے سے، فاتح تک پہنچنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا کہ اس کھیل میں ،ایک میچ کا فیصلہ کم از کم ایک دن میں ہوتا ہے جبکہ دوسری کئی کھیلوں میں ایک دن میں تین تین میچوں کے فیصلے سامنے آ جاتے ہیں۔ تاہم آئی سی سی کے لئے اس سے زیادہ اہم وہ معیار ہے کہ جس کو برقرار رکھنے کے لئے ورلڈ کپ میں شرکت ایک کڑا امتحان ہے، ایسا ممکن نہیں کہ پورے سال ایک ٹیم کی کارکردگی متاثر کن نہ رہے اور اسے گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پر ہمیشہ کے لئے ایک بڑے مقابلے میں شریک رکھا جائے، اس کی بجائے یہ طے ہے کہ معیار پر پورا نہ اترنے والی ٹیموں کو اپنی اہلیت ثابت کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی سی سی مسلسل ٹیموں کی رینکنگ جاری کرتی رہتی ہے جس میں کھیلے گئے میچز، ان میں جیت کا تناسب، ہار اور نیٹ رن ریٹ کو ہمیشہ سامنے رکھ کر ٹیموں کو ترتیب دیا جاتا ہے، پاکستان کو ایک مرحلے پر اہلیت ثابت کرنے کا مرحلہ درپیش آنے سے قبل ہی اگر ؍ مگر سے رینکنگ میں پہلی آٹھ پوزیشنز میں برقرار رہا اور اہلیت ثابت نہیں کرنا پڑی۔ اس وقت ماضی کی دو ورلڈ چمپئن ٹیمیں ویسٹ انڈیز اور سری لنکا، اہلیت ثابت کرنے کے لئے ورلڈ کپ سے قبل ایک ٹورنامنٹ زمبابوے میں کھیل رہی ہیں، جبکہ دیگر دو ایسی ٹیمیں زمبابوے اور آئر لینڈ، جو ورلڈ کپ کھیل چکی ہیں، اپنی غیر متاثر کن کارکردگی کے باعث ورلڈ کپ اہلیت ثابت کرنے کا ٹورنامنٹ کھیل رہی ہیں۔ جبکہ افغانستان اس دوڑ سے باہر ہو چکا اور ورلڈ کپ کھیلنے کی لئے اہل ہے، یہ سب کچھ جہد مسلسل کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی میں تسلسل قائم رکھتے ہوئے ماضی کی دو چمپئن ٹیموں سے بہتر ہو چکا ہے۔
پاکستان میں نہ ٹیلنٹ کی کمی ہے اور نہ ہی جذبے کی مگر دکہ صرف ایک چیز کا ہے کہ پاکستانیوں کو مسلسل منقسم رکھ کر، اصول و ضوابط سے ماورا، کھیل میں اقرباء پروری، کھیل خواہ کوئی بھی ہو، حتی کہ سیاست کو بھی سیاسی اصول کے خلاف کھیلنے میں پاکستان کو ملکہ حاصل ہے۔ بظاہر ’’ استحکام پاکستان‘‘ کی ضرورت کا واویلا ہے لیکن نت نئی ٹانگہ سیاسی جماعتیں بناکر عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہیں، جمہوریت کا راگ تو الاپا جاتا ہے مگر نظر کہیں نہیں آتی، آزادی اظہار رائے کی ضمانت دی جاتی ہے لیکن عمران ریاض خان جیسے صحافی کا کوئی اتہ پتہ نہیں ( شنید ہے کہ عید سے قبل واپسی ہو جائے گی)، انتقامی سیاست سے گریز کرنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر ہر ’’ صاحب اقتدار و اختیار‘‘ انتقام پر تلا بیٹھا ہے۔ کل کی حکمران جماعت کے لئے سانس لینا بھی دوبھر ہے جبکہ زیر عتاب رہنے والے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، البتہ چند ایک شخصیات کے لئے سیاست ہنوز شجر ممنوعہ دکھائی دے رہی ہے۔ بہرکیف! اس فانی دنیا میں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں عروج و زوال ایک لازمی امر ہے، جبکہ لافانی ذات فقط رب کریم کی ہے، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف وقت کے دھارے میں کبھی عروج کبھی زوال کا سامنا رہتا ہے البتہ کرکٹ کی دنیا میں بھارتی کرکٹ کے عروج کی خاطر بھارتی بھارتی کردار بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، جو بہر کیف کھیل کے حسن، اور رینکنگ کو متاثر کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button