ColumnImtiaz Aasi

الٹا دریا

الٹا دریا

امتیاز عاصی
یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کسی دریا کو جنوب سے شمال کی طرف بہتے دیکھا ورنہ تو دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں۔ دریائے ژوب پر انگریز دور کا پل دیکھ یر حیرت ہوئی سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کئی بار دریا کا پانی پل کے اوپر سے گزر گیا پل جوں کا توں کھڑا ہے۔ پاکستانی انجینئرز نے بنایا ہوتا تو کب کا بہہ چکا ہوتا۔ دریائے ژوب افغانستان سے بہتا ہوا ژوب سے گزر جاتا ہے۔ ژوب جاتے ہوئے راستے میں ایف سی کی کئی ایک چیک پوسٹوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے جہاں ہر آنے والے مسافر کی انٹری ہوتی ہے۔ دریا کے پل سے گزرنے والی سٹرک کے پی کے میں شمالی وزیرستان اور افغانستان کو ملاتی ہے۔ چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ژوب قدرتی حسن کا شاہکار ہے۔ ھکلہ انٹر چینج سے سی پیک کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان تک سفر کا پتہ نہیں چلا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر سٹرک کچھ خراب تھی۔ جونہی ژوب جانے والی سٹرک پر پہنچے تو سٹرک دیکھ کر حیرانی ہوئی اتنی وسیع اور خوبصورت سٹرکیں تو بڑے بڑے شہروں میں نہیں ہوتیں۔ سابق وفاقی سیکرٹریز سید ابو احمد عاکف اور ڈاکٹر ظفر اقبال قادر جیسی باغ و بہار شخصیات کی ہمراہی میں اسلام آباد سے ژوب کی طویل مسافت نے تھکان کا احساس نہیں ہونے دیا۔ عاکف صاحب سے حج کے حوالے سے غائبانہ تعارف تو تھا۔ وہ سعودی عرب میں ڈائریکٹر جنرل حج اور مدینہ منورہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر حج رہ چکے ہیں سی ایس ایس کے امتحان میں انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ڈاکٹر ظفر قادر اور ابوعاکف اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود اپنے اوپر کرپشن کا دھبہ پڑنے نہیں دیا۔ ژوب میں 1891ء میں تعمیر ہونے والا قلعہ اب کمشنر ژوب کا آفس اور رہائش گاہ ہے وہیں ہمارا قیام تھا۔ ژوب کا پرانا نام تو فورٹ سنڈیمن تھا۔ یہ قلعہ انگریز دور کے کرنل رابرٹ سنڈیمن نے تعمیر کرایا تھا۔ انگریز سرکار نے رابرٹ سنڈیمن کو بلوچستان کے بہت سے قبائل کو رام کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی جس میں وہ کامیاب رہا۔ کرنل رابرٹ کا انتقال 1892ء میں ہوگیا اس کی قبر بلوچستان کے علاقہ بیلہ میں واقع ہے۔ قلعہ میں ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے جہاں اسی دور کے انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کو اس کا محافظ گولی مارتے دکھایا گیا ہے جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے پولیٹیکل ایجنٹ نے ملازمین کی تنخواہوں کو روکا تھا جس کی پاداش میں محافظ نے اسے گولی کا نشانہ بنایا بعد ازاں انگریز سرکارنے گولی مارنے والے محافظ کو پھانسی دے دی تھی۔ قلعہ سے ملحقہ ایک اور چھوٹا سا قلعہ ہے جہاں انگریز سرکار کی فوج کا قیام ہوا کرتا تھا۔ آج کل اس قلعے میں لیویز کے اہل کاروں کا قیام ہے۔ کمشنر ژوپ سعید احمد عمرانی کا تعلق نصیر آباد سے ہے، وہ پی سی ایس افسر ہیں، نہایت خوش اخلاق اور کم گو افسر ہیں، مہمانوں کی خدمت میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ظفر قادر کو بلوچستان کا سر سید نہ کہا جائے تو زیادتی ہوگی۔ ژوب میں وہ پولیٹیکل ایجنٹ ، اسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر تعنیات رہے۔ ژوب میں تعلیمی فائونڈیشن کے سکول کو کھلے تیس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے وہاں کے رہنے والوں کی تیسری نسل فائونڈیشن کے سکول میں علم حاصل کر رہی ہے۔ ہمیں سکول کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا کمشنر ژوب مہمان خصوصی تھے۔ طلبا اور طالبات ایک ہی یونیفارم میں نظم و ضبط کے ساتھ دھوپ میں کھڑے رہے۔ ژوب جاتے ہوئے ضلع۔ شیرانی بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان کئی دروں سے گزر کر آتا ہے۔ شیرانی میں کوہ سیلمان بھی ہے، روایات کے مطابق اسی پہاڑ پر حضرت سیلمان نے جنوں کے ذریعے ملکہ سباء تخت منگوایا تھا۔ کوہ سیلمان پر چلغووں اور زتیون کے درختوں نے پہاڑ کی شان و شوکت کو دوبالا کیا ہوا ہے۔ ژوب میں پہنچنے کے اگلے روز ایک وسیع و عریض میدان میں رحمن بابا ادبی ایوارڈ کی تقریب تھی، جس کا اہتمام مقامی پشتو شاعر یعقوب سنگہار نے کیا تھا۔ کے پی کے، ملتان اور کوئٹہ سے آئے ہوئے شعراء کرام نے رحمان بابا کا
کلام سنایا اور انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ رحمان بابا کے صوفیانہ کلام کو پشتو اکیڈیمی نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ رحمان بابا نے اپنے کلام میں محبت، امن انسان دوستی اور بھلائی کا درس دیا۔ انہی خصوصیات کی بنا وہ پشتو ادب کے محافظ تھے۔ تقریب کے اختتام پر مہان خصوصی ابو احمد عاکف اور ڈاکٹر ظفر قادر نے شعرا میں ایوارڈ تقسیم کئی۔ مہمانوں کی تواضع بلوچستان کی خصوصی ڈش روش سے کی گئی جو ایک طرح سے منفرد ڈش تھی۔ بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر کنڈی، سابق بیوروکریٹس محبوب اختر اور سرور جاوید جو ملتان سے تشریف لائے تھے سے خوب ملاقات رہی۔ ژوب میں ایک چھوٹا ایئرپورٹ ہے جو قلعہ سے صاف دکھائی دیتا ہے، آج کل یہ ایئرپورٹ بعض انتظامی وجوہات کی وجہ سے فکنشنل نہیں ہے۔ سی پیک کے منصوبے سے ژوب کی طویل ترین مسافت اب صرف سات گھنٹے میں طے ہو جاتی ہے۔ دو روزہ قیام کے بعد واپسی پر ہمیں ڈیرہ اسماعیل خان شہر کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ دریائے سندھ کا رخ موڑنے کا منصوبہ زیر غور ہے اس منصوبے پر کچھ کام ہو چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے دریا کا رخ موڑ کر خشک جگہ پر کوئی رہائشی منصوبہ زیر غور ہے۔ اگر دریا کے کنارے سیاحتی مقام بنایا جائے تو کے پی کے کی حکومت سیاحت سے خاصا سرمایہ کما سکتی ہے۔ ژوب جو کبھی تعلیمی لحاظ سے بہت پسماندہ ضلع سمجھا جاتا تھا تعلیمی فائونڈیشن نے اسکول کا آغاز کیا تو اس کے بعد سرکاری تعلیمی اداروں کی بھرمار ہو گئی۔ خواتین کے ڈگری کالج کے لئے قطعہ اراضی کا انتظام ڈاکٹر ظفر قادر نے کیا تھا کالج کی اراضی تعلیمی فائونڈیشن کے نام ہے۔ دراصل مقامی لوگ یہاں مدرسہ بنانا چاہتے تھے حالانکہ مدارس تو اور بھی کئی تھے۔ ڈاکٹر ظفر قادر نے ضروری سمجھا یہاں طالبات کے لئے کالج ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان کا لگایا ہوا پودا اس وقت تناور درخت بن چکا ہے لگ بھگت دو ہزار طالبات کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button