ColumnMazhar Ch

گھریلو بچہ مزدوری، نئے دور کی غلامی

مظہر چودھری

ڈومیسٹک چائلڈ لیبر یا گھریلو بچہ مزدوری چائلڈ لیبر کی ایسی قسم ہے جس میں کم سن بچے ( زیادہ تر نو عمر لڑکیاں ) لوگوں کے گھروں میں کھانے پکانے، کپڑے دھونے اور استری کرنے اور صفائی ستھرائی جیسے مشقت کے کام سرانجام دینے کے علاوہ چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ ان بچوں کے کام کرنے کے کوئی مخصوص اوقات کار مقرر نہیں ہوتے اور اسی بنیاد پر گھریلو بچہ مزدوری نئے دور کی غلامی کہی جا سکتی ہے ۔ عمومی طور پر ایسے بچوں کے والدین یا تو خود صاحب ثروت لوگوں کے گھروں میں جز وقتی یا کل وقتی کام کرتے ہیں یا پھر انہوں نے اپنے بچوں کو پیسے کی لالچ میں امیر گھرانوں میں جز وقتی یا مستقل طور پر ملازم رکھوایا ہوتا ہے۔ گھریلو بچہ مزدوری کی ایک شکل تو گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے وہ بچے ہیں جن کے والدین لوگوں کے گھروں یا کھیتوں میں کام کرتے ہوئے انہیں اپنی مدد کے لیے اپنے ساتھ لاتے رہتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین اپنے ساتھ اپنی نوعمر بچیوں کو بھی لاتی ہیں جو گھروں کی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھونے یا استری کرنے میں اپنی مائوں کی مدد کرتی ہیں۔ گھریلو بچہ مزدوری پر مجبور دوسری قسم ایسے بچوں یا بچیوں کی ہوتی ہے جنہیں ان کے غریب والدین امیر گھرانوں میں یا تو جزوقتی ( چند گھنٹوں یا دن کے ایک بڑے حصے) کام کے لیے بھیجتے ہیں یا پھر وہ اپنے کم سن بچوں اور بچیوں کو صاحب ثروت گھرانوں میں مستقل طور پر ملازم رکھوا دیتے ہیں۔ گھریلو بچہ مزدوری کی یہ قسم مستقل نوعیت کی مزدوری یا نئے دور کی غلامی ہے اور بچوں سے زیادتی اور تشدد سمیت متعدد قسم کی خرابیوں کا باعث بنتی ہے۔ بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ بچوں کو40سے زائد سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے مستقل نوعیت کی گھریلو بچہ مزدوری پر مجبور بچے بہت سارے حقوق اور سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے بچوں کی غالب اکثریت اپنے والدین اور خاندان کے دیگر افراد سے دور رہنے کے باعث مستقل طور پر افسردہ، یاسیت اور ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوا کروڑ کے قریب بچے مختلف اقسام کی چائلڈ لیبر میں کسی نہ کسی طرح سے پھنسے ہوئے ہیں جن میں 70لاکھ کے قریب بچوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اور ان70لاکھ بچوں میں سے 40لاکھ بچے پندرہ سال سے کم عمر ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر پر مجبور بچوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو بچہ مزدوروں کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں خواتین اور بچوں سمیت 85لاکھ سے زائد افراد گھریلو مزدوری کرتے ہیں۔ پاکستان میں گھریلو بچہ مزدوروں سمیت بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں معمول کی بات ہیں لیکن میڈیا و سول سوسائٹی اور حکومت و ریاست صرف اس وقت تھوڑا بہت حرکت میں آتے ہیں جب بچوں سے زیادتی یا گھریلو تشدد کا کوئی انتہائی سنگین واقعہ رونما ہو جاتاہے ۔ دیکھا جائے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گھریلو ملازمین ایکٹ2019 بھی موجود ہے جس کے تحت 15سال سے کم عمر بچوں کو گھریلوملازم نہیں رکھا جا سکتا اور12سے15سال کی عمر کے بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے پر قید اور جرمانے کی سزائیں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود تلخ حقائق یہ ہیں کہ معمولی صاحب ثروت گھروں سے لے کر ایلیٹ کلاس تک کے ہر دوسرے گھر میں نہ صرف کم عمر بچے جز وقتی کام یا کل وقتی ملازمت کرتے دکھاءی دیتے ہیں بل کہ صاحب ثروت گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو معمولی نوعیت کی غلطیوں پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جانا بھی معمول بن چکا ہے۔ پچھلے سال جولائی میں ڈیفنس لاہور کے ایک گھر میں 11سالہ گھریلو ملازم کو فریج سے بلا اجازت کھانا نکال کر کھانے کی پاداش میں بدترین تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔2017میں رکن پنجاب اسمبلی شاہ جہاں کی بیٹی نے 16سالہ گھریلو ملازم پر جان لیوا تشدد کیا تھا۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں پر سنگین تشدد کا ایک اور واقعہ2018میں راولپنڈی میں پیش آیا تھا جہاں سرکاری افسران عمارہ اور ڈاکٹر محسن کے گھر میں 11سالہ گھریلو ملازمہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔2016کے آخر میں ایڈیشنل جج اور ان کی اہلیہ کے ہاتھوں دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ بدترین تشدد کا شکار ہوئی تھی۔ گزشتہ چند سال میں میڈیا پر نمایاں کوریج حاصل کرنے والے یہ چند واقعات محض نمونے کے طور پر لکھے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ اگر سیاستدانوں، ججز اور سرکاری افسران کے گھروں میں گھریلو بچہ مزدور زیادتیوں اور ناانصافیوں سے محفوظ نہیں تو روایتی صاحب ثروت گھرانوں میں ان کے ساتھ انسانی بنیادوں پر منصفانہ سلوک کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔
کوئی شک نہیں کہ کوویڈ اور روس یوکرین تنازع کے نتیجے میں ہونے والی عالمی مہنگائی کے برے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں گھریلو بچہ مزدوری سمیت چائلڈ لیبر کی تمام اقسام میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم کمزور معیشتوں والے ہمارے جیسے ممالک میں اس مسئلے کی سنگینی نسبتا بہت زیادہ ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک کوویڈ اور روس یوکرین تنازع کے نتیجے میں سامنے آنے والے معاشی بحران سے نکل آئے ہیں لیکن ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی نے معاشی حالات بدستور دگرگوں کر رکھے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے غریب خاندان بچوں کو گھروں میں جز وقتی یا کل وقتی کاموں پر لگانے کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کی دیگر خطرناک اقسام میں جھونکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ملک میں ابھی بھی دو کروڑ کے قریب بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ بچے کسی بھی وقت گھریلو بچہ مزدور بن کر چائلڈ لیبر فورس کا باقاعدہ حصہ بن سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرضوں میں جکڑی معیشت کے حامل ملک کے لیے فوری طور پر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھاتے ہوئے غریب خاندانوں کو معاشی ریلیف دینا یا مختلف شعبوں میں جبری مشقت پر مجبور بچوں کو اس دلدل سے نکالنا کافی مشکل ہے تاہم اس کے باوجود بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنے سابقہ ( وزیراعلیٰ پنجاب) دور کی طرح چائلڈ لیبر میں کمی کے لیے پرعزم ہو جائیں تو گھروں اور اینٹوں کے بھٹوں پر غلاموں کی طرح جبری مشقت پر مجبور بچوں کی داد رسی کی لیے بہت کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں میں گھریلو بچہ مزدوری کے خلاف سرے سے قانون موجود ہی نہیں۔ پنجاب اور اسلام آباد میں گھریلو مزدور بچوں کے لیے بنائے گئے قانون پر موثر عمل درآمد کے لیے قانون میں ضروری ترامیم اور اضافے ناگزیر ہیں۔ گھریلو بچہ مزدوری کے خلاف سرگرم تنظیم سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک بچوں کی جبری مشقت کے خاتمے کے لیے پاکستان پینل کوڈ میں ترامیم کو ناگزیر سمجھتے ہوئے اس حوالے سے قومی پالیسی کی تشکیل پر زور دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button