ColumnRoshan Lal

اسحاق ڈار کا ماضی اور ایک نئی ایمنسٹی سکیم

روشن لعل

آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑے ہوئے پاکستان کا بجٹ 2023پیش کرتے وقت وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک حیران کن بات کو ملک کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اب کسی کو بھی اپنی کمائی کے ذرائع ظاہر کیے بغیر بیرون ملک سے 100000ڈالر تک یہاں لانے کی اجازت ہوگی۔ بیرونی دنیا اور خاص طور پر آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کے اس اعلان کو ایک نئی ایمنسٹی سکیم قرار دیا ہے۔ اس ایمنسٹی سکیم سے متعلق اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق آئندہ کوئی بھی شخص بغیر کسی ٹیکس کی ادائیگی کے ایک لاکھ ڈالر کسی بھی روک ٹوک کے بغیر پاکستان لا سکے گا۔ ایک لاکھ ڈالر کی رقم موجودہ شرح مبادلہ کے مطابق تقریباً 29ملین پاکستانی روپے بنتی ہے ۔ اسحاق ڈار نے تو بغیر کسی ٹیکس کی ادائیگی کے ایک لاکھ ڈالر تک رقم پاکستان لانے کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائز میں اضافہ کرنے کی کوشش قرار دیا مگر آئی ایم ایف کے ظاہر کیے گئے تحفظات سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ادارہ نامعلوم ذرائع سے حاصل کی گئی رقم کو غیر شفاف آمدن اور اسے پاکستان لانے کی اجازت کو کالا دھن سفید کرنے کی کوشش سمجھ رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے صرف اسحاق ڈار کی نئی ایمنسٹی سکیم پر ہی تحفظات کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان نے 2019میں ادارہ سے6.5بلین ڈالر کا قرض لینے کے لیے جو شرائط تسلیم کی تھیں، اسحاق ڈار کا پیش کردہ بجٹ ان شرائط کے منافی ہے۔ پیریزروئز کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے روگردانی کر کے پاکستان نے نئے وفاقی بجٹ میں اپنے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے کا موقع ضائع کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ کے مذکورہ تحفظات اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے6.5فیصد مالیاتی خسارے کے ساتھ آئندہ مالی سال کے لیے 14.46ٹریلین روپے (50.4بلین ڈالر) کا بجٹ تو پیش کر دیا مگر بجٹ پیش کرتے وقت یہ نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط نہ مان کس طرح بجٹ کو قابل عمل بنایا جاسکے گا۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام قرض پروگرام کے نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے گزشتہ نومبر سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، جو کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ ابھی تک کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچنے سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستان کو قرض کی نئی قسط کے اجرا اور قرض فراہم کرنے کی اس مدت میں توسیع ہونا بہت مشکل ہے، جو رواں جون کے آخر میں ختم ہونے والی ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے بجٹ پر جو مجموعی تحفظات ظاہر کیے ان سے اب یہاں ہر کوئی آگاہ ہو چکا ہے ۔ میڈیا کے لوگوں نے جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ان تحفظات کے متعلق سوال کیے تو انہوں نے واضح جواب دینے کی بجائے یہ مبہم خیال ظاہر کیا کہ آئی ایم ایف عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان کو قرض کی فراہم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ مزید براں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا عالمی ادارے چاہتے ہیں کہ مالی بحران کا شکار پاکستان پہلے سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ ہو جائے تو پھر اس سے مذاکرات کیے جائیں۔ اسحاق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی طرف سے ہونے والے مذاکرات کے غیر نتیجہ ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ تو نہیں بتائی مگر مبہم لفظوں میں یہ عندیہ ضرور دے دیا کہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کے بغیر بھی پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے کے حوالے سے اسحاق ڈار نے اپنے جس پلان بی کا اشارہ دیا ہے اس کے مبہم ہونے کی وجہ سے فی الحال اس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ فی الحال ایک خاص حوالہ سے اسحاق ڈار کی ایک لاکھ ڈالر پاکستان لانے کی اس سکیم پر بات ہو سکتی ہے جس نے 1998میں رونما ہونے والا ایک واقعہ یاد کرا دیا ہے۔
وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 27ستمبر 1998کو برطانوی اخبار آبزور میں ایک سٹوری شائع ہوئی جس میں دیگر تفصیلات کے علاوہ یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے140ملین ڈالر پشاور کے حوالہ گروپ کی وساطت سے بینک آف عمان میں منتقل کیے۔ یہ رقم پھر فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفیکیٹس کی شکل میں شریف خاندان کے 43افراد کے نام پر منتقل ہوئی۔ اسی تسلسل میں ڈالروں اور ٹریولر چیکوں کی شکل میں ایک بہت بڑی رقم نواز شریف کے کاروباری شراکت دار جاوید کیانی کے ذریعے بعض گمنام لوگوں سلمان ضیاء ، محمد رمضان اور اصغر علی کے جعلی بینک اکائونٹس میں منتقل کی گئی۔ یہ رقم بعد ازاں جاوید کیانی کے ذریعے سینیٹر اسحاق ڈار کے ان تعلق داروں کاشف مسعود قاضی، نزہت گوہر قاضی اور سکندر مسعود قاضی کے بینک اکائونٹس میں منتقل کی گئی جو ان اکائونٹس کو جعلی قرار دے کر ان کی ملکیت سے انکار کرتے رہے۔ آبزور کی رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا کہ یہ بینک اکائونٹس آخر کار شریف خاندان کی ملکیت حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپر ملز وغیرہ کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کی ضمانت کے طور پر استعمال کئے گئے تھے۔ آبزرور اخبار کی مذکورہ رپورٹ کی اشاعت کے ایک دن بعد میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے 28ستمبر کو برطانوی پریس محتسب کو اخبار کے خلاف شکایت درج کرائی۔ آبزرور کی انتظامیہ نے شریف خاندان کی اپنے خلاف درج کرائی گئی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد 14اکتوبر1998 کو جواب دیا کہ وہ شریف خاندان کے متعلق شائع شدہ اپنی رپورٹ پر قائم اور کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کے لیے تیار ہے۔ آبزرور کے اس جواب کے بعد نواز حکومت اور شریف خاندان نے اس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔
جو واقعہ سطور بالا میں بیان کیا گیا ہے اس سے کئی ایسے واقعات بھی جڑے ہوئے ہیں، جنہیں دفن کیے جانے کی کوششوں کے باوجود ان کے حوالوں کو فنا نہیں کیا جاسکا۔ جس واقعہ کا حوالہ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجی گئی اس رقم سے متعلق ہے جسے گارنٹی کے طور پر پاکستان میں سٹی بینک لاہور سے قرض حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کا مرکزی کردار ہونے کی وجہ سے اسحاق ڈار صاحب کو یہ ابھی تک یاد ہوگا۔ اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسحاق ڈار سے صرف یہ گزارش ہے کہ آپ نے قبل ازیں بھی کئی ایسی ایمنسٹی سکیمیں جاری کیں، جن کا آپ کے ہمنوائوں کے علاوہ ملک کو کبھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آپ کے سابقہ ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئی ہی شاید آئی ایم ایف نے اس خدشے کے تحت اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ کہیں بیرون ملک سے آنے والے ایک لاکھ ڈالر کی آڑ میں یہاں سے باہر بھیجا گیا کالا دھن سفید کرنے کا وہی سلسلہ آگے بڑھنا نہ شروع ہوجائے جس کا آغاز کاشف مسعود قاضی، نزہت گوہر قاضی اور سکندر مسعود قاضی وغیرہ کے نام پر جعلی بینک اکائونٹ کھول کر کیا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button