
سی ایم رضوان
موجودہ اتحادی حکومت نے واضح طور پر، اصولی طور پر کہہ رکھا ہے کہ پی ٹی آئی جیسی دہشت گرد جماعت سے مذاکرات تو کجا اب اس کا کڑا احتساب کر کے ملک کو اس سے پاک کر کے ہی دم لیں گے۔ اس دوٹوک حکومتی موقف کی وجہ سے سلیمان کے ابا نے انتہائی مکاری اور عیاری سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اب مذاکرات صرف آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے کرنے کا عندیہ دے دیا ہے کہ موجودہ سول حکمرانوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ اصل اختیارات آرمی چیف کے پاس ہیں اسی لئے وہ ان سے مذاکرات کر کے ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ملک کو اس سنگین ترین بحران کا خود انہوں نے ہی شکار کیا ہے۔ بہرحال پاک فوج بھی نو مئی کو نائن الیون قرار دے چکی ہے اور اصولی طور پر عمران خان کو پاکستان کے ازلی دشمنوں سے بھی بدتر دشمن سمجھتی ہے۔ فوج کے اس واضح، سچے اور حقیقی معنوں میں حب الوطنی پر مبنی موقف اور فیصلے کے بعد جو لوگ پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر جا رہے ہیں ان پر نہ تو کوئی پریشر ہے اور نہ ہی وہ ایسا کسی مفاد کی خاطر کر رہے ہیں بلکہ وسیع تر ملکی مفاد، جذبہ حب الوطنی کے تحت اس سیاستدان سے کنارہ کش ہو رہے ہیں جس کا مقصد ہے کہ پاک فوج اور پاکستانی عوام کے ساتھ لڑا کر ملکی عسکری طاقت کو کمزور کیا جائے۔ اس ضمن میں یہ حقیقت کیا کم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ مرکزی جنرل سیکرٹری اسد عمر گزشتہ روز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ سانحہ نو مئی سے پہلے ہی سلیمان کے ابا کی بے ڈھنگی اور بونگی اینٹی اسٹیبلشمنت اور ٹکرا کی پالیسی کے مخالف تھے اور متعدد بار اپنے موقف کا اظہار کر چکے تھے مگر چیئرمین اپنی اس روش سے باز نہ آئے اور اپنے ماتحت لیڈروں اور کارکنوں کو ٹکر، مخالفت اور جلائو گھیرائو پر اکساتے رہے۔ یہاں تک کہ سانحہ نو مئی رونما ہو گیا۔ اسد عمر نے یہ بھی کہا کہ وہ ذاتی طور پر پاک فوج کے حوالے سے جذباتی ہیں اور اس موقر ادارے سے منفرد انداز کا لگا رکھنے کی بنا پر اس ادارے کے خلاف اس حد تک نہیں جاسکتے جس حد تک ان کی پارٹی کو لے جایا گیا۔ وہ چونکہ اپنی پارٹی قیادت کے خیالات اور ان کی سٹریٹجی سے متفق نہیں تھے لہٰذا ان کا عہدہ چھوڑ دینا ہی مناسب تھا سو انہوں نے چھوڑ دیا۔ عمران خان جیسے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے اور بازاری سودے باز کی طرح روزانہ کی بنیاد پر رائے اور موقف بدلنے والے شخص کے ساتھ یقینی طور پر اسد عمر جیسے متوازن شخصیت کے مالک سیاستدان کا مزید چلنا دشوار تھا۔ اسی طرح دیگر پارٹی قیادت بھی ان کو انہی وجوہات کی بناء پر چھوڑ رہی ہے البتہ جو لوگ اب بھی ان کے ساتھ ہیں شاید ان کو حقائق کا علم نہیں یا پھر ان کا ہاضمہ انتہائی تیز ہے کہ وہ روزانہ اتنے جھوٹ نہ صرف سن لیتے ہیں بلکہ ہضم بھی کر لیتے ہیں۔ دور کیا جانا صرف نو مئی کے واقعات کے بعد سابق وزیراعظم کے پل پل بدلتے بیانات کو ہی ایک نظر دیکھ لیجئے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عمران خان کس قدر جھوٹے، دغاباز، غیر سنجیدہ اور قوم کو بیوقوف بنانے کے درپے ہیں کہ الحفیظ و الامان۔
سپریم کورٹ سے گڈ ٹو سی یو جیسا دل نشیں فقرہ سن کر اور رہائی پاکر جب سلیمان کے ابا گھر آ رہے تھے تو راستے میں یہ کہا کہ میرے دشمن نمبر ون آرمی چیف جنرل عاصم منیر ہیں۔ گھر آئے تو آتے ہی یہ بیان داغ دیا کہ مجھے تو کسی بات کا علم ہی نہیں پھر یہ کہا کہ نو مئی کو عسکری تنصیبات جلانے والوں سے ان کا اور ان کی پارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔ اگلے روز تھوڑا تبدیلی آئی اور اپنے معمول کے خطاب میں یہ کہا کہ عسکری قیادت نے سازش کر کے یہ واقعات کروائے اور سازش کے تحت ہی ہمارے لوگوں کو پکڑ رہے ہیں۔ اس سے اگلے خطاب میں یہ بیان داغ دیا کہ ہمارے لوگ تو بے گناہ ہیں۔ یعنی پہلے روز ان کے مطابق یہ لوگ پی ٹی آئی سے متعلقہ نہیں تھے اور دوسرے روز انہیں علم ہوگیا کہ لوگ ان کے اپنے ہی تھے لیکن معصوم تھے۔ اگلا بیان ان کا یہ تھا کہ اس سانحہ میں ایجنسیاں ملوث ہیں۔ پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر صحیح معنوں میں تفتیش کرنی ہے تو ایجنسیاں ہم سے ملیں، اصل ملزمان ڈھونڈنے میں ہم ان کی مدد کریں گے۔ پھر یہ بھی کہا کہ ایجنسیاں ملزمان کے نام دیں ہم ان کو گرفتار کروا دیں گے۔ پھر یہ بھی کہا کہ ( خدا نخواستہ) ملک تباہ ہورہا ہے اسے بچانے کے لئے آرمی چیف فوری طور پر ان سے مذاکرات کریں۔ پھر ریٹائرڈ آرمی افسران کا ایک وفد بھی آرمی چیف کے پاس بھیج دیا کہ وہ ان کو مذاکرات پر قائل کریں۔ جواب میں آرمی چیف کا موقف ملک بھر کے ریٹائرڈ آرمی افسران کے لئے ایک پیغام تھا کہ اگر ریٹائرڈ آرمی افسران کو سیاست کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ آرمی سے اپنا تعلق اور پنشن، مراعات وغیرہ چھوڑ کر سیاست کے میدان میں جائیں اور کھل کر کھیلیں لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ سب کچھ انجوائے بھی کریں اور سیاست میں بھی سرگرم رہیں۔ اس کے بعد بھی اس دہشت گرد ٹائپ سیاستدان کو سمجھ نہیں آئی کہ فوج تو بحیثیت ادارہ سیاست سے اپنا دامن بچا کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پورا کرنا چاہتی ہے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر ایسے ہتھکنڈوں سے کبھی بھی مرعوب یا متاثر نہیں ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ ایک طرف سے مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں اور دوسری طرف سے اسی آرمی پر بھونڈی قسم کی تنقید خود بھی کر رہے ہیں اور کروا بھی رہے ہیں۔
قوم اور فوجی قیادت کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش میں مصروف عمرانی ٹولے کو معلوم ہونا چاہئے کہ انٹیلی جنس ایجنسی کی وہ رپورٹس وزیراعظم اور آرمی چیف کی میزوں پر موجود ہیں جن میں کہا کیا گیا ہے کہ 9اور 10مئی کے دن جو کچھ ہوا اس کا منصوبہ بہت عرصہ پہلے بن گیا تھا اور اس میں عمران خان مبینہ طور پر ملوث تھے۔ پی ٹی آئی کے زیادہ تر رہنمائوں کو مبینہ پلان کا علم ہی نہیں تھا، اسے خفیہ رکھا گیا تھا اور صرف چند قابل بھروسہ وفاداروں ( جن کے نام رپورٹ میں موجود ہیں) کو اس کا علم تھا اور یہی وہ افراد تھے جنہوں نے عمران خان کی ہدایات پارٹی کے دیگر حلقوں تک پہنچائیں۔ ایجنسی نے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ عمران خان نے خصوصی طور پر ہدایات دی تھیں کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں پہلے سے طے شدہ مقاماتِ کو ہدف بنایا جائے۔ 9مئی کو مراد سعید نے یہ بات پارٹی رہنمائوں کو اپنی ٹویٹس کے ذریعے بتائیں اور ہدایت کی کہ بتائے گئے مقامات پر مظاہرے شروع کئے جائیں۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سانحہ 9مئی میں اپنے کارکنوں کو اشتعال دلانے کے حوالے سے عمران خان کا نام لیا ہے۔ ان کے مطابق انٹیلی جنس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسد عمر، مراد سعید اور اعظم سواتی عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں، ساتھ ہی یاسمین راشد، حماد اظہر اور عون عباس بپی کا نام پنجاب، مراد سعید اور عمر ایوب کا نام کے پی، جبکہ علی زیدی کا نام سندھ، علی نواز اعوان اسلام آباد اور قاسم سوری کا نام بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات میں شامل ہے۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اقتدار سے نکلنے کے بعد سے عمران خان نے ایک جارحانہ لیکن جعلی بیانیہ بنانے کی کوشش کی اور متعدد سازشی نظریات پیش کیے جن میں عالمی گٹھ جوڑ سے لے کر انٹیلی جنس ایجنسی کے ہاتھوں اپنے قتل کے منصوبے کا ذکر شامل ہیں۔ عمران خان نے اپنے حامیوں کے ذہنوں میں اس قدر زہر انڈیل دیا تھا کہ ان لوگوں نے کھل کر فوج اور اس کی سینئر قیادت کی توہین کی، مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کیے ۔ یہ عمران خان کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ عوام کو اپنی ہی فوج سے لڑانے کی تیاری کی گئی۔ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اپنے اشتعال انگیز خطبات کی مدد سے عمران خان نے سوچے سمجھے انداز سے فوج کے سینئر عہدیداروں بشمول آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی سی وغیرہ پر الزامات عائد کیے حتیٰ کہ کچھ مواقع پر عمران خان نے نام لے کر الزامات عائد کیے۔ ایجنسی نے یہ بھی بتایا ہے کہ عمران خان اس قدر مایوس ہو چکے تھے کہ راولپنڈی میں 6مئی کی ریلی کے حوالے سے پی ٹی آئی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ہونے والے اجلاس میں انہوں نے ریلی کچہری چوک ( آرمی ہائوس کے قریب) کنٹونمنٹ ایریا پر ختم کرنے کی بجائے مریڑ چوک پر ختم کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی راولپنڈی چیپٹر کو سختی سے ڈانٹا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان جانتے تھے کہ پارٹی کی اول اور دوسرے درجے کی قیادت ان کی گرفتاری کی صورت میں پرتشدد مظاہرے نہیں کرے گی، انہوں نے ایک میکنزم تشکیل دیا تاکہ صرف اپنے قابل بھروسہ وفاداروں کے ساتھ رابطہ ایپ اور عمران ٹائیگرز ڈاٹ کام جیسے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے رابطے میں رہیں جن میں عمران ٹائیگرز اور آئی ایس ایف کارکن شامل تھے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے یونین کونسل کی سطح تک پارٹی کی تنظیم کی تھی تاکہ پارٹی کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے اور کارکنوں کو فوری طور پر متحرک کیا جاسکے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے وفاداری کا حلف لیا ہوا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہر حال میں ان کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ عمران خان کو توقع تھی کہ عوام بڑی تعداد میں پرتشدد مظاہرے کریں گے۔ انہیں ان کے کچھ مشیروں نے یہ یقین دلایا تھا کہ ملک میں ہر جگہ افراتفری پھیل جائے گی اور حکومت بشمول فوجی قیادت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی اور اپنی شرائط منوائی جا سکیں گی۔ نو اور دس مئی کو فوج کی جانب سے تحمل کے مظاہرے نے انہیں بے خوف کر دیا اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ فوج کمزور ہو چکی ہے اور ان کے دبائو کا سامنا نہیں کر سکتی، انہیں یہ تاثر بھی دیا گیا تھا کہ جیسے ہی عوام فوجی تنصیبات اور اہم مقامات پر جمع ہوں گے تو فوج اندر سے بھی ہلچل کا شکار ہو جائے گی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سنجیدہ اور حساس سکیورٹی فورسز اصولی طور پر عمران خان اور ان کے ٹولے کو دہشت گرد سمجھتی ہیں جبکہ عمران خان پراپیگنڈے اور جھوٹے بیانات سے خود کو ایک سیاستدان ظاہر کر رہے ہیں حالانکہ انہیں علم ہے کہ ان کے جرائم ملک دشمنی اور غداری پر مبنی ہیں، جن کی سزا انہیں بہرحال بھگتنا ہو گی اور حساس ادارے اب ان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔