Columnمحمد مبشر انوار

مساوی موقع

محمد مبشر انوار

پی ڈی ایم حکومت کے لئے بظاہر معاملات طے ہوتے نظر نہیں آ رہے گو کہ مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل اپنی بھرپور کوششوں میں ہے کہ کسی طرح آئینی مسائل پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔ لیکن کیا کریں کہ عدالتیں اس وقت آئین کے ساتھ کھڑی ہیں اور بقول چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیاں، آئین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے، لہذا عدالت اپنے بنیادی فرض منصبی سے کسی طور پہلوتہی نہیں کر سکتی۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ نے نو رکنی بنچ تشکیل دیا، جس پر پی ڈی ایم ؍ ن لیگ معترض ہوئی اور دو ججز کی شمولیت پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس پر دونوں معزز جج صاحبان بینچ سے الگ ہو گئے۔ بعد ازاں دو مزید ججز نے اپنی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی اور باقی پانچ ججز نے کیس کی سماعت کی۔ اس سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے واضح فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ فیصلہ تین ؍ دو کی نسبت سے دیا جا رہا ہے جبکہ اختلافی نوٹ دینے والے معزز جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ان کی رائے دو ججز کے مطابق ہے لہذا ان کی نظر میں مجوزہ فیصلہ تین ؍ دو کے بجائے چار ؍ تین سے ہے۔ یہاں ایک اور قانونی بحث شروع ہو گئی کہ وہ جج جنہوں نے مقدمہ کی ابتداء میں ہی خود کو سماعت سی الگ کر لیا تھا، ان کی رائے قانونی طور پر فیصلے کا حصہ نہیں بن سکتا تو بینچ میں موجود معزز جج صاحبان کس طرح ان کی رائی کو بنیاد بنا کر، اسے فیصلے کا حصہ قرار دے سکتے ہیں؟ تاہم اس ایک نقطہ پر پی ڈی ایم حکومت نے اپنی عمارت تعمیر کی، اور مسلسل اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا، حتی کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے دی گئی انتخابی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد حیلے بہانے سے نہیں کروایا گیا، جس میں نہ صرف وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن براہ راست ملوث ہیں بلکہ حکومتی بد نیتی کا عنصر بھی عیاں ہے اور جب بھی عدالت عظمیٰ نے اس امر پر کارروائی کی، تو یقینی امر ہے کہ ان تمام ارباب اختیار پر توہین عدالت لگے گی، جس سے ان کی نااہلی واضح ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نااہلی کی مدت کب تک رہتی ہے اور کیا یہ توہین اس نوعیت کی ہے کہ اس پر تاحیات نااہلی کی جا سکے؟ تاہم اس کا فیصلہ عدالت عظمیٰ ہی کر سکتی ہے کہ کسی بھی شخص کو توہین عدالت کے جرم میں نااہلی کی سزا میں میعاد و مدت کتنی ہو سکتی ہے، مختلف سیاسی شخصیات کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کا معیار و پیمانہ مختلف رہا ہے۔ جس کی وجوہات بھی یقینی طور پر اہم ہیں کہ توہین عدالت کرنے والی شخصیت کس سیاسی و سماجی حیثیت ؍ مرتبے کی حامل ہے، توہین عدالت کا پیمانہ بھی عدالت ہی تعین کرتی ہے کہ جرم کی سنگینی کتنی ہے اور اس سے عدالتی احکامات کی عدولی پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ اس کی مثالیں موجود ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو فقط سوئس عدالت کو صدر کے منصب پر فائز زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے پر فقط تیس سیکنڈ کی سزا سنائی گئی اور انہیں پانچ سال کے لئے نا اہل کیا گیا جبکہ یوسف رضا گیلانی مسلسل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے استدعا کرتے رہے کہ صدر کو آئین کے تحت مستثنیٰ ہے لیکن چیف جسٹس نے یوسف رضا گیلانی کی ایک نہ سنی اور انہیں توہین عدالت پر سزا سنا دی۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے کئی ایک کارکنان پر عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کی کارروائی کرتے ہوئے انہیں مخصوص مدت کے لئے نا اہل کر دیا، ان میں اکثریت اس وقت دوبارہ عملی سیاست کا حصہ نظر آتے ہیں البتہ ایسی سزائوں کے بعد عدالت نے اپنا وقار بحال رکھا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے باوجود سیاسی کارکنوں کی جانب سے احتیاط کا دامن مسلسل چھوڑا جا رہا ہے اور نہ صرف معزز جج صاحبان کی ذات بلکہ ان کے کردار کو بھی سرعام تنقید بلکہ تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے تاہم ہنوز کسی بھی عدالتی سطح پر توہین عدالت کا ازخود نوٹس نہیں لیا گیا اور مجوزہ کرداروں کی کسی عدالت نے طلب نہیں کیا۔
دوسری طرف دو سیاسی شخصیات ایسی ہیں کہ جنہیں ان کے سنگین جرائم کی بنیاد پر تاحیات نا اہل کر رکھا ہے اور موجودہ سیاست اس وقت ان دو سیاسی شخصیات کی گرد گھوم رہی ہے یا سیاست کو زبردستی ان کا مرہون منت بنایا جارہا ہے۔ عرض مکرر کہ جرم کی سنگینی کا اندازہ کرنا یا طے کرنا کلی طور پر مجوزہ عدالت کا اختیار تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر ہی عدالت نہ صرف سزا تجویز کرتی ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بھی بناتی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی دیکھیں تو مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اس حوالے سے باقیوں سے بالکل مختلف ہے کہ جب بھی عدالتوں نے انہیں سزا دی ہے، خواہ وہ مشرف کے دور حکومت میں ہو یا پھر ان کی اپنی حکومت میں عدالت نے انہیں اقتدار سے الگ کیا ہو، بعد ازاں میاں نواز شریف بہر طور جیل کی سلاخوں میں رہنا کسی طور پسند نہیں کرتے ۔ انہیں ہمیشہ سے یہ سہولت میسر رہی ہے کہ وہ جیل کی سلاخوں سے براہ راست کسی عالمی فلائٹ پر سوار بیرون ملک جاتے دکھائی دئیے ہیں اور جب تک حالات ان کے اقتدار کے لئے سازگار نہیں ہوئے، ان کی وطن واپسی ممکن نہیں رہی ہے۔ آج بھی صورتحال بعینہ وہی ہے کہ میاں نواز شریف کو عملا سیاست میں فعال ہونے کے لئے چونکہ کوئی موقع میسر نہیں اور اس مرتبہ بھی چونکہ وہ عدالتوں سے سزا پا کر بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ پاکستان میں ان کے بھائی کی حکومت ہونے کے باوجود وہ پاکستان آنے سے گریزاں ہیں کہ تاحال ان کی قانونی حیثیت انہیں اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ فوری پاکستان واپس آئیں۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ میاں شہباز شریف نے بطور وزیراعظم نہ صرف اپنے بلکہ اپنے اہل خانہ کے مقدمات کو بذریعہ قانون سازی تحفظ دے دیا ہے لیکن ابھی تک میاں نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار نہیں ہو سکا گو کہ انہیں سفارتی پاسپورٹ تک جاری ہو چکا ہے، جس پر وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں سفر کر سکتے ہیں، سوائے پاکستان کا قصد کرنے میں انہیں تامل ہے کہ پاکستان سفر کرنے پر انہیں حراست میں لئے جانے کے امکانات ہنوز موجود ہیں۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ معاملہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ میاں نواز شریف کے سیاست میں عملی طور پر غیر فعال ہونے کے نتیجہ میں ان کی جماعت بہر طور اپنی مقبولیت کھو رہی ہے، جس کا اظہار ان کی جماعت کے کئے ایک اکابرین کھلم کھلا اور بین السطور کرتے نظر آتے ہیں، انہیں متوقع انتخابات میں انتخابی مہم چلانے میں شدید الجھن ہو رہی ہے اور انہیں یہ بھی یقین ہے کہ موجودہ صورتحال میں عمران خان کی مقبولیت انہیں کسی صورت جیتنے نہیں دے گی۔ میاں شہباز شریف اور ان کی حکومت، حسب سابق اپنے تئیں کوششیں تو کر رہی ہے کہ کسی طرح میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کی جائے اور فرد واحد کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی بھی کر رہی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اداروں کی حمایت کے باوجود عدلیہ جیورس پروڈنس کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی کسی بھی قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ بنی کھڑی ہے۔ عدلیہ کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ایسی قانون سازی پر اپنی مہر تصدیق ثبت کرے کہ جو جیورس پروڈنس سے متصادم ہو، گو کہ کارکردگی کے حوالے سے عدلیہ کی عالمی سطح پر پوزیشن قطعی قابل ستائش نہیں لیکن اس کے باوجود ایسی کسی بھی قانون سازی پر مہر تصدیق ثبت کرنا بھی عدلیہ کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ازخود سماعت کے اختیار یا چیف جسٹس کے مسلمہ اختیارات پر قدغن لگانے کی جو کوششیں حکومت کی طرف سے کی گئی ہیں، انہیں روبہ عمل ہونے سے قبل ہی عدالت عظمیٰ نے معطل کر رکھا ہے تاوقتیکہ اس پر عدلیہ کا حتمی فیصلہ سامنے نہیں آتا۔ اس سارے ہنگام میں مسلم لیگ ن نے اپنی بھرپور کوشش میں ہے کہ کسی طرح نہ صرف عمران خان کو کسی مقدمے میں جیل کی سزا ہو بلکہ اسے نااہل بھی کروایا جا سکے تا کہ اس کی آڑ میں عمران خان کا بازو مروڑتے ہوئے اسے قائل کیا جا سکے کہ نااہلی سے بریت کے لئے وہ میاں نوازشریف کے لئے این آر او دینے پر تیار ہو جائے لیکن کیا کریں کہ عدالت عظمیٰ نے ایک مرتبہ پھر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے، اس بحث کو پھر سمیٹ دیا ہے کہ انتخابات کی حوالے سے عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس سماعت کا فیصلہ تین ؍ دو کی اکثریت سے ہے، جبکہ کسی بھی ازخود نو ٹس پر نظر ثانی کی اپیل پر وہی بینچ مقدمہ کی سماعت کر سکتا ہے، جس نے پہلے مقدمہ کی سماعت کی ہو۔ یوں حکومتی کوشش کہ ازخود نوٹس کی اپیل میں بڑا بینچ تشکیل پائے تا کہ اکثریتی بنیاد پر فیصلہ برعکس ممکن ہو، فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا اور حکومتی امید کہ اس قانون کے بل بوتے پر نااہلی کالعدم کروا کر فریقین کے لئے مساوی موقع حاصل کیا جا سکے، شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔

جواب دیں

Back to top button