ColumnRoshan Lal

9مئی کو کیا نہ ہو سکا؟

تحریر:روشن لعل

۔9 مئی2023ء کو پاکستان میں جو کچھ ہوا، اسے یہاں کھلے لفظوں میں بغاوت قرار دیا جارہا ہے۔ انتہائی سادہ تعریف کے مطابق کسی بھی قسم کے غیر آئینی اقدامات سے حکومت گرانے کی کوشش کو بغاوت کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی کوششیں درپردہ محلاتی سازشوں اور مسلح کارروائیوں پر بھی محیط ہو سکتی ہیں۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے مگر جو نہ ہو سکا اس سے متعلق کوئی نہیں بتا رہا۔ جو نہیں ہوا اس کی تفصیل تو بیان نہیں کی گئی مگر اسے کرنے کی کوشش کو بغاوت قرار دے کر اس کی سنگینی کا احساس ضرور دلا دیا گیا ہے۔ جو واقعات سنگین نتائج کے حامل ہو سکتے تھے، ان کے متعلق کیونکہ ابھی تک کسی نے لب کشائی نہیں کی اس لیے فی الحال صرف قیاس ہی کیا جاسکتا ہے کہ ان کی نوعیت کیا ہو سکتی تھی۔ جن واقعات کا قیاس ہو سکتا ہے ان کے متعلق یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ وہ کن حقیقی واقعات کا تسلسل ہو سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ قیاس کئے گئے واقعات ان کارروائیوں کے تسلسل میں رونما ہونے تھے جن کا نظارہ پاکستان سمیت پوری دنیا نے کیا۔ 9مئی کو جو واقعات رونما ہوئے ان کا آغاز عمران خان کی القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں گرفتاری سے ہوا۔ گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا اسے گرفتاری سے پہلے دیئے گئے عمران خان کے بیانات سے جوڑ کر دیکھنا بہت ضروری ہے ۔ عمران کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو وہی کچھ ہوا جس کی پیشگوئی وہ اپنے بیانوں میں پہلے ہی کر چکے تھے۔ عمران خان نے اپنی گرفتاری کی صورت میں جلائو گھیرائو جیسے واقعات کا عندیہ تو بہت پہلے سے دے رکھا تھا مگر ایک خاص حلقہ کے لوگوں کے علاوہ شاید کسی کے بھی علم میں نہیں تھا کہ ان پرتشدد واقعات میں نشانہ کنٹونمنٹ علاقوں اور فوجی تنصیبات کو بنایا جائے گا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد رونما ہونیوالے پرتشدد واقعات میں کسی سول پراپرٹی کی بجائے فوج کے جن علاقوں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ان میں لاہور کا کور کمانڈر ہائوس، راولپنڈی میں فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹر ، پشاور میں فوج کے شہدا کی یادگاریں اور میانوالی میں ایئر فورس کا رکھا گیا، جہاز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان پرتشدد کارروائیوں کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے کہ کوئٹہ میں جب فوجی علاقے اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تو صرف وہاں پر ہی سخت ایکشن لیتے ہوئے مظاہرین کو کنٹرول کیا گیا۔ اب پورے ملک میں سے صرف کوئٹہ میں ہی ایسا رد عمل نظر آنے کے پیچھے کیا کہانی ہے ، اس بارے میں ابھی تک کوئی قیاس بھی سامنے
نہیں آسکا۔ اس وقت کیونکہ ہمارا موضوع صرف یہ ہے کہ 9مئی کو کیا نہیں ہو سکا اس لیے اس بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاسکتی کہ تشدد پر آمادہ مظاہرین کے خلاف جو رد عمل کوئٹہ کنٹونمنٹ میں نظر آیا وہ کہیں اور دکھائی کیوں نہیں دیا۔9مئی 2023کو جو نہ ہو سکا اس کا قیاس کرتے ہوئے ذہن اس واقعہ کی طرف چلا جاتا ہے جو مئی 1977میں لاہور شہر میں ہوا ۔ مارچ 1977میں منعقدہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت پر دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد نے بھٹو حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کر دیا تھا۔ جب پولیس کے ذریعے ان مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں تو بھٹو صاحب نے آئین میں موجود گنجائش کے مطابق ملک کے تین بڑے شہروں لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اس مارشل لا کے نفاذ کے بعد شہر لاہور میں وہ کچھ ہوا جس کی پاکستانی تاریخ میں نہ کوئی پہلے مثال موجود تھی اور نہ ہی بعد میں سامنے آسکی۔ بھٹو دور میں ملک کے تین شہروں میں لگائے گئے مختصر مارشل لا سے قبل پاکستان میں ایوب اور یحییٰ کے طویل مارشل لا دیکھے جاچکے تھے۔ ان مارشل لائوں کے دوران ملک کے طول و عرض میں عوام کے حقوق غصب کرتے ہوئے ان پر ظلم زیادتی
اور خونریزی تک کے ایسے ناقابل تردید واقعات سامنے آئے جو ہماری تاریخ کا شرمناک حصہ ہیں۔ ایسے واقعات کے باوجود کبھی یہ دیکھنے میں نہ آیا کہ کنٹرول اینڈ کمانڈ کے لازمی اصول کو ماننے والے کسی ماتحت نے کسی پرتشدد کارروائی کا حصہ بننے کی بجائے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہو۔ ایوب اور یحییٰ کے مارشل لا کے بعد عوام پر جبر کرنے کا حکم ماننے کی بجائے نوکری چھوڑنے جیسا کوئی واقعہ ضیا الحق کے ظلمات سے بھرپور مارشل لا میں بھی نظر نہیں آیا۔ جبر کا حصہ بننے کے بجائے اپنی نوکری کو خیر باد کہنے جیسے جو واقعات کسی آمر کے دور میں رونما نہ ہوئے وہ بھٹو کے لگائے گئے مختصر سے مارشل لا کے دوران لاہور شہر میں نظر آئے۔ بھٹو دور میں لگائے گئے مارشل لا کے دوران جب فوج کو پرتشدد مظاہرین کنٹرول کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو محمد اشفاق، نیاز احمد اور اشتیاق علی خان نام کے بریگیڈئیر رینک کے تین فوجی افسروں نے یہ کہتے ہوئے نوکری چھوڑنے کا اعلان کر دیا کہ وہ اپنے ہی شہریوں پر گولیاں چلانے کے لیے فوج میں بھرتی نہیں ہوئے تھے۔ یہاں کیونکہ یہ بتایا گیا ہے کہ کسی بھی مارشل لا کے دوران کبھی نوکری چھوڑنے جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اس لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جس چیف جسٹس اسلم ریاض نے بھٹو کی طرف سے لگائے گئے مارشل لا کے خلاف فیصلہ دیا تھا ، بعد ازاں اسی چیف جسٹس
نے ضیا کے نافذ کردہ مارشل لا میں گورنر پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ بھٹو کے لگائی گئے مارشل لا کے دوران لاہور میں رونما ہونے والے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب یہ قیاس کرنا آسان ہے کہ 9مئی کو کیا نہیں ہو سکا۔ اس قیاس کا محرک وہ سوال ہے جس میں پوچھا جاتا ہے کہ کنٹونمنٹ ایریا کی حفاظت کے لیے خاص طور پر بنائی گئی گیریزن سیکیورٹی فورس اس وقت حرکت میں کیوں نہ آئی جب پرتشدد مظاہرین کینٹ ایریا میں داخل ہو رہے تھے۔ آخر کیوں ان مظاہرین کو کنٹونمنٹ ایریاز میں داخل ہونے اور وہاں دھڑلے سے توڑ پھوڑ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سوال کا جواب یہ قیاس ہے کہ سول ایریاز کی بجائے کینٹ ایریاز کو نشانہ بنانے والے آخر کار کیا کرنا چاہتے ہیں اس کی اطلاع انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پہلے سے ہو چکی تھی۔ لہذا اس اطلاع کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی ایسا رد عمل ظاہر نہیں کیا جائے گا کہ جس سے محمد اشفاق، نیاز احمد اور اشتیاق علی جیسا کوئی کردار سامنے آنے کا امکان پیدا ہو۔ اس قیاس کو مد نظر رکھ مزید یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر مذکورہ تین سابق فوجی افسروں جیسا کوئی کردار سامنے آجاتا تو 9مئی کو مزید کس قسم کی بغاوت رونما ہو سکتی تھی۔ ایسا قیاس کرتے ہوئے یہ خیال رہے کہ جو کچھ مئی 1977میں ہوا اس کا ٹارگٹ صرف بھٹو تھا مگر جو مئی 2023میں نہیں ہونے دیا گیا اس کا ٹارگٹ صرف شہباز شریف نہیں تھا۔

جواب دیں

Back to top button