ColumnImtiaz Aasi

قومیں ایسے ترقی نہیں کرتیں .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد مملکت خداداد کو ذوالفقار علی بھٹو کی صورت میں visionaryلیڈر ملا جسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد قوم ابھی تک کسی visionary رہنما کی متلاشی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہو اور اس کا بیرونی قرضہ 136ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہو اورجس کی 86فیصد آبادی نئی گاڑیاں اور موبائل خریدنے کا ارادہ ترک کر دے ایسے معاشرے کو انتخابات کی بجائے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے ہم عام طور پر روس، چین اور ایران کی ترقی کی مثال دیتے ہیں۔ کبھی اس پہلو پر غور کیا ان ملکوں کی ترقی کا راز کیا ہے۔ روس میں لینن، چین کے ماوزئے تنگ اور ایران میں حضرت آیت اللہ خمینی جیسے لیڈروں نے عوام کی طاقت سے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ مملکت پاکستان میں کوئی حکومت ایسی نہیں گزری جس نے احتساب کے معاملے میں پوری قوت سے کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے ہوں حالانکہ ہر دور میں احتساب کے ادارے بنائے گئے لیکن کوئی حکومت احتساب کی بدولت کرپشن کے خاتمے کا دعوی نہیں کر سکتی۔ ہم عمران خان کی الیکشن کی تھوری سے متفق نہیں ہیں بلکہ وقت آگیا ہے قوم انقلاب برپا کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہو تاکہ ایک مرتبہ کرپشن میں ملوث لوگوں کا خاتمہ ہو سکے۔ چین، روس اور ایران میں انقلاب ایسے برپا نہیں ہوئے چین میں ماوزئے تنگ کی قیادت میں لاکھوں لوگوں نے کئی ہزار میل مارچ کیا۔ ایران میں سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ایسے نہیں ہوا کرپشن میں ملوث لوگوں کو چوراہوں پر کھڑا کر کے پھانسیاں دی گئیں۔ چین میں استعماری قوتوں کو ویسے شکست نہیں ہوئی بلکہ ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جس کے بعد جمہوریہ چین کے بانی ماوزئے تنگ نے نئے چین کی بنیاد رکھی۔ چین کو ترقی دینے کے لئے انہوں نے تین اہم اقدامات کئے جن میں پہلے قدم کے طور پر انقلاب مخالف لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیااور دوسرے اقدام کے طور پر ایک ثقافتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کے قریب قریب تیس لاکھ لوگوں کو مار دیا گیا۔ آج جمہوریہ چین ترقی کے سفر
میں دنیا کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ چینی ماہرین دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں گوادر کی تعمیر اور سی پیک منصوبہ چینوں کا مرہون منت ہے۔ جہاں تک ایران میں حضرت خمینی کے انقلاب کی بات ہے شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اپنی حکومت کے ایک اہم عہدے دار نبی حیدر کو اقتدار سوپنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے۔ امیر عباس ہویدا جیسے وزراء کو چوراہوں پر لٹکایا گیا۔ پاکستان جیسے ملک جس کے سیاسی رہنما بذات خود کرپشن میں ملوث ہوں ایسے معاشرے کی از سر نو بنیاد رکھنے کی اشد ضرورت ہے لہذا قوموں کی ترقی کا راز جہد مسلسل اور قربانیوں میں پہنا ہے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی جدوجہد کے نتیجہ میں نہر سویز کو امریکہ اور برطانیہ کے تسلط سے آزاد کرایا۔ اس وقت مصر کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ایک نہر سویز ہے۔ اسی دور میں مصر میں تعنیات ہونے والے پاکستان کے نئے سفیر اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں جب وہ اپنی تقرری کی اسناد پیش کرنے صدر جمال عبدالناصر کے ہاں گئے تو انہوں نے بڑی گرمجوشی سے انہیں ویلکم کہا اور بیٹھنے کا کہہ کر اندر چلے گئے۔ جب وہ آدھ گھنٹے بعد واپس لوٹے تو ان کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں کافی کے دو کپ اور بسکٹ تھے۔ جمال عبدالناصر نے سفیر سے تاخیر کی معذرت کرتے ہوئے بتایا ان کا کک چھٹی پر ہے اور ان کی اہلیہ کسی سکول میں پڑھاتی ہیں لہذا وہ خود ہی کافی بنا کر لے آئے ہیں۔ ان کی یہ بات سن کر سفیر پاکستان سوچوں میں گم ہو گئے۔ ہمارا ملک ہے جس کے صدر اور وزرائے اعظم کے پاس ایک نہیں کئی کک جانے اور کیا کچھ ہوتا
ہے۔ جس ملک کے عوام اور کاروباری طبقہ ٹیکس دینے کے لئے تیار نہ ہوں ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ، دھوکہ دہی اور کرپشن عروج پر ہو ا ایسے ملک ترقی کر سکتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے ہمیں اب الیکشن کی بجائے کسی نیلسن منڈیلا، لینن، ماوزئے تنگ اور آیت اللہ خمینی کی ضرورت ہے جو خونی انقلاب کی راہ ہموار کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے۔ جس ملک میں کھربوں کی کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو چھوڑ دیا جائے اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں فاقوں پر اتر آئیں ایسے معاشرے کی ترقی کے لئے خونی انقلاب واحد راستہ ہے جس میں کرپشن کرنے والوں کو چوراہوں پرپھانسی پر لٹکایا جائے۔ چین، روس اور ایرانی انقلاب کی طرح کرپشن کرنے والوں کو تختہ دار پر چڑھائے جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو میں بشری کمزوریاں ہو سکتی ہیں ان پر کرپشن کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ملک میں بس دو جماعتوں نے باریاں لگائی ہوئی تھیں۔ گو عمران خان اپنے دور میں کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ۔ وہ کچھ بھی کہیں کرپشن میں ملوث لوگوں کو سزائیں دلوانا ان کی اولین ذمہ داری تھی۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے جس نے اپنی سیاسی جدوجہد میں عوامی خدمت کے دعوے دار سیاست دانوں کی کرپشن سے عوام کو آگاہی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ عمران خان کی اس ناکامی کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد تحریک انصاف کے ساتھ اس امید سے کھڑی ہے عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن کرنے والوں سے لوٹ مار کا پیسہ واپس کرائیں گے۔ جب تک ملک میں کوئی visisonaryلیڈر نہیں آتا، ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ روس، چین اور انقلاب ایران کی مثالیں دینے کا مقصد قوم کو سمجھ جانا چاہیے۔ پاکستانی قوم کو الیکشن کی بجائے انقلاب کے لئے تیار رہنا چاہیے جب تک ملک میں کوئی خونی انقلاب نہیں آتا ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button