ColumnImtiaz Ahmad Shad

جمہوری تماشا .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

پاکستان میں ہماری سیاست ایک مخصوص دائرے میں گردش کرتی چلی آ رہی ہے۔ ہرچند برس بعد ہم گھوم پھر کر اُسی مقام پر آ پہنچتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ اس لاحاصل مشق کا سب سے بڑا سبب خود ہمارے اپنے بالادست طبقات ہیں۔ جب تک اقتدار ان طبقات کے مخصوص مفادات کے نگہبانوں کی گرفت میں رہے گا، عوام کے دیدہ و دل کی نجات کی گھڑی مسلسل دور سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں بسنے والوں کی اکثریت حکمران طبقے سے شدید نالاں ہے۔ جس آئین پاکستان کو بنیاد بنا کر آج پارلیمان اور اس کے نام نہاد محافظ شور بپا کئے ہوئے ہیں اس آئین کی کسی ایک شق پر ان وارداتیوں نے کبھی عمل نہیں کیا۔ قوم کو بے معنی مسائل میں جکڑ کر خود جس کے ہاتھ جو لگا ،خالہ جی کا گھر سمجھ کر لوٹ لیا۔جب دل کرتا ہے جمہوریت لے آتے ہیں اور جب مزاج بدلنے ہوں آمریت کا تڑکا لگا لیتے ہیں۔مفاد پرستوں کے اس ٹولے کو ہر دور میں اوج ثریا ہی دستیاب رہی ہے، سسک سسک کر مرنا تو فقط بد قسمت عوام کے مقدر میں لکھا ہے۔عجب تماشا ہے کہ آئین کا ابتدایہ کہتا ہے کہ اقتدار اعلی کا مالک اللہ تعالی کی ذات ہے مگر عملی طور پر ہر عہدے پر براجمان ہر شخص مطلق العنان ہے۔ علامہ اقبالؒ نے سچ کہا تھا:
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
دین اور سیاست کے جدا ہونے کا مطلب ہے سیاسی عمل کی اخلاقی اور روحانی اصول و اقدار سے روگردانی۔ جب تک سیاست کو اخلاقی اور روحانی اصولوں کے تابع نہ کر دیا جائے گا اُس وقت تک کتابوں سے اخذ کیا گیا اچھے سے اچھا سیاسی نظام بھی ہماری زندگی کو ہمہ گیر ویرانی سے نجات نہیں دلا سکتا۔ جب تک تن پرستی اور جاہ مستی کی شیطانی اقدار ہی ہمارے ہاں سیاسی عمل کا جلی عنوان بنی رہیں گی اُس وقت تک ہر نظامِ سیاست، چاہے وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی فوجی آمریت ہو یا سویلین فسطائیت، ناکام اور رُسوا ہی ہوتا رہے گا۔عوام نظامِ زندگی میں بامعنی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ وہ تبدیلیاں جو تحریکِ پاکستان کے پرچم پر مرقوم تھیں مگر ہمارا حکمران طبقہ اُن بنیادی تبدیلیوں سے ڈرتا چلا آ رہا ہے۔یہ تبدیلیاں ہماری اجتماعی ہستی کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ حکمران طبقے نے تبدیلی کے عمل کو روکنے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر رکھا ہے۔یہ طریقہ فقط انتظامی تبدیلی سے عبارت ہے۔جب لوگ ایک نظامِ حکومت کے بنجر پن سے باغی ہونے لگتے ہیں تو یہ طبقہ ایک دوسرا نظام لا کر یہ جھوٹا تاثر دینے لگتا ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔جب لوگ اس نظام سے اُکتا جاتے ہیں تو پھر وہی پُرانا نظام نیا قرار دے دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں حقیقی تبدیلی کے عمل کو روکنے کا یہ نسخہ بار بار آزمایا جا چکا ہے۔ ہماری زندگی اور ہماری سیاست پر ظالم طبقوں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ گاشتہ نصف صدی کے دوران وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی زرعی اصلاحات پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جاگیرداروں اور وڈیروں سے اصولا چھینی گئی لاکھوں ایکڑ اراضی ابھی تک عملاً انھی کے قبضہ قدرت میں موجود ہے۔ اسی طرح ربع صدی پیشتر وجود میں آنے والا سرداری نظام کی تنسیخ کا قانون System of Sardar (Abolition) Act, 1976 آج تک اپنے عملی نفاذ کو ترس رہا ہے۔صدر جنرل ضیاء الحق نے مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی بلوچ سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے کی خاطر اِس قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ آج تک کسی نے بھی رکاوٹ کو دُور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔اس لیے کہ ہر حکمران کواپنا اقتدار قائم رکھنے کی خاطر مختلف طبقات کی خوشنودی عزیز ہے۔ ہمارے دین اور ہمارے آئین ہر دو سے متصادم سرداری اور جاگیرداری نظام کے عملًا قائم رہنے کے نقصانات بے پناہ ہیں۔ میں فی الحال اس ضمن میں فقط دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا کافی سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ جو نظام قانونی طور پر کالعدم قرار دیا جا چکا ہو اُس کا غیر قانونی طور پر باقی رہنا قومی وقار کے سراسر منافی اور ریاستی وحدت کے لیے بے حد خطرناک ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اب پاکستان میں سرداری اور جاگیرداری نظاموں کی پروردہ سیاست کے زہریلے اثرات دائرہ امکان سے نکل کر حقیقی خطرات کا روپ دھارے چکے ہیں۔موجودہ حالات میں عوام کو واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کون لوگ اور جماعتیں ہیں جو جمہوریت کو عوامی نہیں ہونے دیتے۔کئی دہائیوں پر مشتمل اس قید نما نظام کے خلاف آج پاکستان کی اکثریت یہ فیصلہ کر چکی کہ اب اس گلے سڑے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔ عوام سمجھ چکے کہ موجودہ نظام میں لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم رکھنے والوں کو گرفت میں لانا ممکن نہیں۔ حکمران اتحاد کی چیخیں اور قانون و آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی یہ واضح عندیا دے رہی ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔اس وقت اس تمام طبقے نے اتحاد قائم کر لیا ہے جس کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ ہمارا احتساب ہو سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر احتساب ہو گیا تو ہماری نسلیں بھی اس کے انجام میں آئیں گی۔ایک طرف جاگیرداری اور سرداری نظام نے ملک کا یہ حال کیا تو دوسری جانب پارلیمان میں آنے والوں نے تو ملک کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دیں۔ قومی سیاست کا چہرہ ایسے بے ضمیر سیاست دانوں سے سجا ہوا ہے جنہوں نے بینکوں سے قرضوں اور توشہ خانہ کو اپنی جاگیر سمجھا، ماضی پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا؟ 1971 سے 1991 تک 3.2 ارب روپے، 1991 سے 2009تک 84.6 ارب اور2009 سے 2015 تک 345.4 ارب روپے معاف کروائے گئے۔ سینیٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق گزشتہ 25سال میں 988سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے چار کھرب، 30 ارب 6کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں انیس کمپنیوں یا افراد نے ایک ارب روپے سے زائد کا قرضہ معاف کروایا جبکہ عدالتوں میں بھی بینکوں کی اِن زیادتیوں کی صدائے بازگشت سنی گئی۔ایک طرف تو سنگ دِلی کا یہ عالم ہے کہ چند ہزار کے ڈیفالٹر ز کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ دریا دلی کہ اربوں روپے کا قرض ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ قرض معاف کرنے کے یہ واقعات کسی ایک سیاسی دور سے تعلق نہیں رکھتے، ہر حکومت ایسی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ پرویز مشرف تو آئے ہی کرپشن ختم کرنے کے لئے تھے،لیکن جتنا لمبا اْن کا عہدِحکومت تھا قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے۔ہر حکومت میں قرضے پہلے سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں اور پھر ایسی ہی مصلحتوں کی بنا پر معاف بھی کر دیئے جاتے ہیں۔یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جن کی وجہ سے آج حکومت کہہ رہی ہے کہ الیکشن کروانے کے لیئے ہمارے پاس پیسے نہیں۔جب سرکاری خزانے کو روزانہ کی بنیاد پراربوں روپے کا ٹیکہ لگے گا تو خزانے کا تو یہی حال ہونا ہے ۔ایک حکومتی اتحاد کے سربراہ فرما رہے تھے کہ ہمیں الیکشن پر کوئی اعتراض نہیں بس تاریخ پر اعتراض ہے کیونکہ چند دنوں تک دوست ممالک اور آ؁ی ایم ایف سے پیسے آنے والے ہیں وہ آجائیں پھر الیکشن کروا دیں گے۔یہ وہی وڈیرے،جاگیردار اور قرض معاف کروانے والے ہیں جنہوں نے ہمیشہ مشکلات کا رونا رو کر ڈالر لئے اور پھر عوام کے بجائے ذات پر خرچ کئے۔اسی سوچ نے آج تک پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔

جواب دیں

Back to top button