Editorial

انتخابی ضابطہ اخلاق کا اجرا، احسن اقدام

ملکی سیاست کے رنگ نرالے ہیں۔ یہاں جب بھی انتخابات کا زور ہوتا ہے تو سیاسی بدمزگیاں معمول بن جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے درمیان معمولی معمولی باتوں پر شدید جھگڑے سامنے آتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جماعتوں کے بینرز، پرچم اُتار پھینک دئیے جاتے ہیں۔ بعض ناخوش گوار واقعات جنم لیتے ہیں، جن میں انسانی زندگیوں کا ضیاع بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس حوالے سے 2013 کے جنرل الیکشن قوم کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوئے تھے، جن میں انتخابی مہمات میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، بم دھماکے اور خودکُش حملے کیے گئے۔ اس باعث بعض سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم بھرپور طور پر چلا نہیں پائی تھیں۔ دوسری جانب دیکھا گیا ہے کہ انتخابات کے دوران رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے۔ دولت کی چمک سے وفاداریاں تبدیل کروائی جاتی ہیں اور بھی اس سے ملتے جلتے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق جاری ہوتا ہے، تاہم اُس پر عمل درآمد کا فقدان ہوتا ہے۔ یہ امر کسی طور مہذب نہیں کہلاسکتا۔ سیاسی جماعتوں، رہنمائوں اور کارکنان کو اس کی ہر صورت پاس داری ممکن بنانی چاہیے۔ تازہ اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا، جس کے مطابق سیاسی جماعتیں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گی، صدر، وزیراعظم سمیت وزرا حلقے میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گی، نیز صدر، وزیراعظم سمیت وزرا حلقے میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے جب کہ الیکشن کمیشن کی کسی بھی شکل میں تضحیک سے اجتناب کیا جائے گا۔ ضابطہ اخلاق میں مزید کہا گیا کہ پولنگ ڈے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون اور کسی بھی امیدوار کو رشوت دے کر دستبردار کرانے سے گریز کیا جائے گا۔ انتخابات میں خواتین کی نمائندگی سے متعلق ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ عام نشستوں کے لیے خواتین کو 5فیصد نمائندگی دی جائے گی۔ امیدوار انتخابی اخراجات کے لیے مخصوص اکائونٹ کھلوانے کا مجاز ہوگا۔ جلسے، جلوسوں میں اسلحے کی نمائش پر پابندی ہوگی اور الیکشن کمیشن کے منظور کردہ سائز کے بینرز، پوسٹرز اور پینا فلیکس استعمال کیے جائیں گے، نیز کوئی بھی مخالف سیاسی جماعت کے بینر نہیں اتارے گا۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کا اجرا ہونا یقیناً احسن اقدام ہے، اس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس کے تمام تر مندرجات مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ خصوصاً الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف بات کرنے پر پابندی عائد کرنا بڑا اقدام ہے، اس کی ضرورت بھی خاصی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران ایک سیاسی گروہ کی جانب سے موقر اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی بارہا کوششیں کی جاچکی ہیں، جنہیں دانش مند اور مدبر حلقوں نے خاصی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ عوامی حلقوں کی جانب سے بھی اس گروہ کو اپنے بیانیے کے باعث پذیرائی نہ ملی۔ افواج پاکستان اور عدلیہ ملکی وقار کی سربلندی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ادارے ہیں۔ افواج پاکستان جہاں ملکی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہیں، وہیں عدلیہ بھی انصاف کی تسلسل کے ساتھ فراہمی کے سبب معتبر ٹھہرتی ہیں۔ ان کے خلاف باتیں کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں گردانا جاسکتا۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ صائب معلوم ہوتا ہے۔ ایسا کرنے والوں کے ساتھ نا صرف سختی سے نمٹا جانا چاہیے بلکہ اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی ممکن بنائی جانی چاہیے۔ صدر، وزیراعظم سمیت وزرا کا حلقے میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا امر بھی احسن ہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق الیکشن کمیشن کی کسی بھی شکل میں تضحیک سے اجتناب کیا جائے گا۔ دیکھا جائے تو پچھلے کچھ مہینوں میں الیکشن کمیشن کی بُری طرح کردار کشی کی مہم سامنے آئی تھی۔ الیکشن کمیشن پر خاصے بھونڈے طریقے سے کیچڑ اُچھالی جاتی رہی۔ اُس پر جانبداری کے الزامات عائد کیے گئے۔ یہ تمام ہتھکنڈے ہر لحاظ سے قابل مذمت تھے۔ اب جب کہ انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا جا چکا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے تمام تر نکات پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ محض کاغذی ضابطہ ثابت نہ ہو بلکہ اس کی مِن و عن پاسداری کا بندوبست ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے سیاسی گروہ کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے اقدامات کرے۔ سب سے بڑھ کر ضروری ہے کہ اس ضابطہ اخلاق کو صاف و شفاف انتخابات کی اساس بنانے کے لیے کسی بھی قسم کی غفلت اور کوتاہی ہرگز نہ برتی جائے۔ ملک و قوم شفاف الیکشن کے متقاضی ہیں، لہٰذا اس حوالے سے ذرا بھی لاپروائی کی قطعاً گنجائش نہیں۔
ایک سال کے دوران بجلی نرخ میں 50 فیصد اضافہ
چین، بھارت، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک میں بجلی کے دام اتنے زیادہ نہیں، وہاں کے عوام کو سستی بجلی میسر ہے جب کہ ملک عزیز کے عوام پہلے ہی ان ملکوں کے مقابلے میں مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور تھے، اس پر طرّہ یہ کہ پچھلے ایک سال کے دوران بجلی نرخوں میں 50 فیصد اضافہ ہونے سے اُن پر مزید بوجھ آن پڑا ہے۔ اطلاع کے مطابق ایک سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا۔ نیپرا دستاویز کے مطابق فیول ایڈجسٹمنٹ اور سرچارجز کی مد میں بجلی مہنگی کی گئی، بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 10 روپے اضافہ ہوا، گھریلو صارفین کی بجلی 50 فیصد مہنگی کی گئی۔ دستاویز کے مطابق گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے نرخ 8 روپے 50 پیسے بڑھے، جس سے صارفین کا ٹیرف 04.18 روپے سے 54.26 روپے ہوگیا۔ دوسری جانب کمرشل صارفین کی بجلی 11 روپے فی یونٹ مہنگی ہوئی، صنعتی صارفین کی بجلی 9 روپے 55 پیسے مہنگی کی گئی، زرعی صارفین کے ٹیرف میں 9 روپے 14 پیسے کا اضافہ ہوا۔ نیپرا دستاویز کے مطابق توانائی کی قیمت 655 ارب سے بڑھ کر 1152 ارب ہوگئی۔ کیپسٹی چارجز 794 ارب سے بڑھ کر 1251 ارب ہوگئے۔ بجلی کی پیداواری لاگت میں 22 فیصد اضافہ ہوگیا جبکہ مجموعی پیداواری لاگت 1515 ارب سے بڑھ کر 2518 ارب ہوگئی۔بجلی کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ اس کی وجہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع پر انحصار ہے، یہاں عرصہ دراز سے بجلی کے گراں ذرائع پر تمام تر توجہ مرکوز کی جارہی ہے اور انہی کے ذریعے بجلی کشید کی جارہی ہے۔ اس کا تمام تر بوجھ صارفین پر پڑتا رہتا ہے جو پہلے ہی مہنگی بجلی سے پریشان رہتے ہیں، کیونکہ اُن کی ماہانہ آمدن کا ایک بڑا حصہ بجلی بل کی نذر ہوجاتا ہے۔ پہلے ہی ملک کے طول و عرض میں مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایسے میں قلیل آمدن میں غریب عوام اپنا گزر بسر کیسے کریں۔ اُن کے لیے ماہانہ بنیاد پر گھروں کا معاشی نظام چلانا ازحد دُشوار اور کٹھن ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بجلی پیداوار کے مہنگے ذرائع فرنس آئل وغیرہ سے جان چھڑاتے ہوئے بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع پر تمام تر توجہ مرکوز رکھی اور انہی کے ذریعے ملکی کھپت کی بجلی کی پیداوار حاصل کی جائے۔ ہوا، سورج اور پانی بجلی کی پیداوار کے انتہائی سستے ذرائع اور کم خرچ بالا نشیں کے مقولے پر پورا اُترتے ہیں۔ بہت ہوچکا، اب ہوا، پانی اور شمسی توانائی سے بجلی کا حصول ممکن بنایا جائے۔ اس کے لیے حکومت موثر حکمت عملی ترتیب دے اور بجلی کی پیداوار کے سستے منصوبوں کو بنائے اور جلد از جلد ان کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوششیں کریں۔ چھوٹے بڑے آبی ذخائر کے منصوبوں کو شروع کیا جائے کہ یہ پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ بجلی کی پیداوار کا موثر ذریعہ ہیں۔ یقیناً اس حوالے سے درست سمت میں اُٹھائے گئے مثبت نتائج کے حامل ہونے کے ساتھ ملکی مفاد میں بہترین ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button